خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک امیر المؤمنین سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیحِ الخامس ایّدہ الله فرمودہ مؤرخہ 11؍مارچ 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد؍ٹلفورڈ یوکے

حضرت ابوبکر صدّیقؓ نے جیشِ اُسامہؓ کی روانگی کی بابت ارشاد فرمایا ! اگر کتّے اور بھیڑیے بھی مجھے نوچ کر کھائیں تو مَیں اِسی طرح اِس فیصلہ کو نافذ کروں گا جیسا کہ رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے حکم فرمایا تھا۔

حضورِ انور ایّدہ الله نے تشہّد، تعوّذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضرت ابوبکر صدّیق رضی الله تعالیٰ عنہ کو خلافت کے بعد جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اُن کے ذکر کے تسلسل میں ارشاد فرمایا۔

پہلی بیان کی گئی مشکل آنحضرت صلی الله علیہ و سلم کی وفات کا غمّ

جو ہر مسلمان کو تھا لیکن سب سے بڑھ کر حضرت ابوبکرؓ جو بچپن کے ساتھی تھے، اُن کو بہت زیادہ دکھ تھا اور اِس کے علاوہ جو مقام تھا اُن کا وفا کا اور بیعت کی گہرائی میں جا کر اُس کا ادراک تھا وہ کسی اور کو تو نہیں تھا لیکن اُس وقت اُنہوں نے بڑی جرأت اور ایمان کا مظاہرہ کیا۔

باوجود آپؐ سے بے اِنتہاء محبّت کے حضرت ابوبکرؓ نے توحید کا درس دیا

آنحضرتؐ کی وفات کا حادثہ اِس قدر شدید اور الم ناک تھا کہ بڑے بڑے صحابہؓ مارے غمّ کے حواس کھو بیٹھے تھے۔ اُس وقت حضرت ابوبکر صدّیقؓ مسجدِ نبویؐ میں تشریف لائے اور وہاں جمع شدہ سب لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے باوجود آپؐ سے بے اِنتہاء محبّت کے توحید کا درس دیا۔

 غمّ کی کیفیت میں دلوں پر مرہم اور توحید کی لرزتی عمارت کو سنبھالا

حضرت ابوبکرؓ نے کمال ہمّت اور حکمت سے اُس وقت غمّ کی اِس کیفیت میں صحابہؓ کی ڈھارس بندھائی اور غمّ کے مارے اِن عُشّاق کے دلوں پر مرہم لگانے کا سبب بنے اور دوسری طرف توحید کی لرزتی ہوئی عمارت کوسنبھالا دیا۔

انتخابِ خلافت کے وقت اُمّتِ مسلمہ کو اتفاق و اتحاد کی لڑی میں پرونا

نبیٔ اکرمؐ کی وفات کے بعد جو ایک دوسرا ممکنہ خدشہ پیدا ہؤا وہ ثقیفۂ بنو ساعدہ میں انصار کا اجتماع تھا اورقریب تھا کہ اختلافی تقریروں سے بڑھ کر بات تلواروں تک جا پہنچے گی کہ اِس نازک موقع پر حضرت ابوبکر صدّیقؓ کی زبان میں الله تعالیٰ نے وہ تاثیر پیدا کی اور دوسری طرف لوگوں کے دلوں کو حضرت ابوبکرؓ کی طرف مائل کیا کہ یہ سارا اِنتشار و اختلاف ایک بار پھر محبّت و اتحاد میں تبدیل ہو گیا۔

تیسری اہم بات، لشکرِ اُسامہؓ کی روانگی

رسول اللهؐ نے یہ لشکر شام کی سرحد پر رومیوں سے جنگ کے لیے تیار کیا تھا۔ جنگِ مُؤتہ اور غزوۂ تبوک کے بعد آپؐ کو خدشہ پیدا ہؤا کہ کہیں اسلام اور مسیحیت کے بڑھتے ہوئے اختلاف اور یہود کی فتنہ انگیزی کے باعث اہلِ روم عرب پر حملہ نہ کر دیں۔ جنگِ مُؤتہ میں حضرت زیدؓ، حضرت جعفرؓ، حضرت عبداللهؓ بن رَواحہ ، مسلمانوں کے تین امیر یکے بعد دیگرے شہید ہوئے۔ نبیٔ کریمؐ کے لوگوں کو اِن اُمراء کی شہادت کی خبر دینے اور آپؐ کی آنکھوں سے آنسو بہنےکے ضمن میں بیان ہؤا کہ اِس کے بعد آپؐ بنفسِ نفیس مسلمانوں کو ہمراہ لے کر جانبِ تبوک روانہ ہوئے لیکن دشمن کو میدان میں نکل کر مسلمانوں کامقابلہ کی جرأت نہ ہوئی اور اُس نے شام کے اندرونی علاقوں میں گھس کر مسلمانوں کے حملوں سے محفوظ ہونے میں اپنی خیریت سمجھی۔

رسول اللهؐ نے اُسامہؓ کو بطورِ پیش بندی شام روانہ ہونے کا حکم دیا تھا

اِن غزوات کے باعث مسلمانوں کے متعلق رومیوں کے اِرادے بہت خطرناک ہو گئے اور اُنہوں نے عرب کی سرحد پر پیش قدمی کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں، اِسی وجہ سے رسول اللهؐ نے اُسامہؓ کو بطورِ پیش بندی شام روانہ ہونے کا حکم دیا تھا اور ایک مقصد جنگِ مُؤتہ کے شہیدوں کا بدلہ لینا بھی تھا۔

لشکرِ اُسامہؓ کی تکمیلِ تیاری و آغاز

لشکرِ اُسامہؓ کی تیاری رسول اللهؐ کی وفات سے دو روز قبل بروز ہفتہ مکمل ہوئی اور اِس کا آغاز آپؐ کی بیماری سے قبل ہو چکا تھا۔ آپؐ نے ماہِ صفر کے آخر میں رومیوں سے جنگ کی تیاری کا حکم دیا، حضرت اُسامہؓ کو بُلایا اور فرمایا! اپنے والد کی شہادت گاہ کی طرف روانہ ہو جاؤ اور اُنہیں گھوڑوں سے روند ڈالو، مَیں نے تم کو اِس لشکر کا امیر مقرر کیا ہے۔

نبیٔ کریمؐ نے حضرت اُسامہؓ کے لیے اپنے ہاتھ سے ایک جھنڈا باندھا

حضرت اُسامہؓ ،آنحضورؐ کے ہاتھ سے بندھا ہؤا جھنڈا لے کر نکلے اور اُسے حضرت بُریدہؓ بن حُصیب کے سپرد کیا اور جُرف مقام پر لشکر کو جمع کیا۔

یہ تم میں سے بہترین لوگوں میں سے ہے

کچھ لوگوں نے باتیں شروع کر دیں اور کہا کہ یہ لڑکا اوّلین مہاجرین پر امیر بنایا جا رہا ہے، اِس بات پر رسول اللهؐ سخت ناراض ہوئے۔ اپنی وفات سے دو روز قبل فرمایا، اَے لوگو! ۔۔۔ اگر میرےاُسامہؓ کو امیر بنانے پر تم نے اعتراض کیا ہے تو اِس سے پہلے اِس کے باپ کو میرے امیر مقرر کرنے پر بھی تم اعتراض کر چکے ہو۔ خدا کی قسم! وہ امارت کے لائق تھا اور اِس کے بعد اُس کا بیٹا بھی امارت کے لائق ہے۔ وہ اِن لوگوں میں سے تھا جو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں اور یقینًا یہ دونوں ایسے ہیں کہ اِن کے بارہ میں ہر قسم کی نیکی اور بھلائی کا خیال کیا جا سکتا ہے، پس اِس یعنی اُسامہؓ کے لیے خیر کی نصیحت پکڑو کیونکہ یہ تم میں سے بہترین لوگوں میں سے ہے۔

مَیںرسول اللهؐ کے جاری فرمودہ فیصلہ کو نافذ کر کے رہوں گا

12؍ ربیع الاوّل، پیر کے دن سورج ڈھلنے کے بعد آنحضرتؐ نے وفات پائی جس کی وجہ سے مسلمانوں کا لشکرجُرف مقام سے مدینہ واپس آ گیا۔ جب حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کر لی گئی تو آپؓ نے بُریدہؓ بن حُصیب کو حکم دیا ! جھنڈا لے کر اُسامہؓ کے گھر جاؤ کہ وہ اپنے مقصد کے لیے روانہ ہوں۔

رسولِ کریمؐ کی وفات کے بعد تمام عرب کے ہر قبیلہ میں سے عوام یا خواص کے فتنۂ ارتداد، نفاق و بغاوت کے پیشِ نظرلوگوں کی درخواست کہ اُسامہؓ کے لشکر کو نہ بجھوایا جائے، اِس ضمن میں حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا! قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر مجھے یقین ہو کہ درندے مجھے نوچ کھائیں گے تو بھی مَیں اُسامہؓ کے لشکر کے بارہ میں رسول اللهؐ کے جاری فرمودہ فیصلہ کو نافذ کر کے رہوں گا۔

جیشِ اُسامہؓ کی روانگی کا حیرت انگیز منظر

اُس وقت حضرت اُسامہؓ سوار تھے جبکہ حضرت ابوبکرؓ پیدل چل رہے تھے، حضرت اُسامہؓ نے عرض کیا! اَے رسول اللهؐ کے خلیفہ یا تو آپؓ سوار ہو جائیں یا پھر مَیں بھی نیچے اُترتا ہوں۔ اِس پر آپؓ نے فرمایا! بخدا نہ ہی تم نیچے اُترو گے اور نہ ہی مَیں سوار ہوں گا اور مجھے کیا ہے کہ مَیں اپنے دونوں پیر الله کی راہ میں ایک گھڑی کے لیے گرد آلود نہ کر لوں کیونکہ غزوہ میں شامل ہونے والا جب کوئی قدم اُٹھاتا ہے تو اُس کے لیے، اُس کے بدلہ میں700 نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اُس کو 700 درجے بلندی دی جاتی ہے اور اُس کی 700 برائیاں ختم کی جاتی ہیں۔

اَے امیر السّلام علیکم

 پھر حضرت ابوبکرؓ نے حضرت اُسامہؓ سے کہا! اگر آپؓ مناسب سمجھیں تو حضرت عمرؓ کو میرے کاموں میں معاونت کے لیے چھوڑ دیں تو آپؓ نے اجازت دے دی۔ اِس کے بعد حضرت عمرؓ جب بھی حضرت اُسامہؓ سے ملتے یہاں تک کہ خلیفہ منتخب ہونے کے بعد بھی تو آپؓ کو مخاطب ہو کر کہتے کہ اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ اَیُّھَا الْاَمِیْرُ؛ اَے امیر السّلام علیکم۔ حضرت اُسامہؓ جواب دیا کرتے تھے غَفَرَ اللهُ لَكَ یَا اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنِ؛ اَے امیر المؤمنین ! الله تعالیٰ آپؓ سے مغفرت کا سلوک فرمائے۔

حضرت ابوبکر صدّیقؓ نے لشکر کو دسّ باتوں کی نصیحت فرمائی

سب سے آخر پر حضرت ابوبکر صدّیقؓ نے لشکر کو خطاب کرتے ہوئے دسّ باتوں کی نصیحت فرمائی نیز حضرت اُسامہؓ کو فرمایا! رسول اللهؐ نے جو تمہیں کرنے کا حکم دیا تھا وہ سب کچھ کرنا، رسول اللهؐ کے احکام کی بجا آوری میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرنا۔

لشکر ِ اُسامہؓ 40 سے لیکر70 روز تک باہر رہنے کے بعد فاتح مدینہ پہنچا

 اِس معرکہ میں مسلمانوں کا کوئی آدمی بھی شہید نہیں ہؤا ، جب یہ کامیاب اور فاتح لشکر مدینہ پہنچا تو حضرت ابوبکرؓ مہاجرین اور اہلِ مدینہ کے ساتھ لشکر کی سلامتی پر خوش ہوتے ہوئے اُن کو ملنے کے لیے باہر نکلے۔

غالبًا یہ آنحضرتؐ سے حضرت ابوبکرؓ کی محبّت کا سبب تھا

حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا تھا! یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ابنِ ابو قُحافہ اِس جھنڈا کی گِرہ کھول دے جو نبیٔ اکرم ؐ نے خود اپنے ہاتھ سے لگائی، چنانچہ لشکرِ اُسامہؓ کی واپسی پر اِس جھنڈا کی گِرہ نہ کھولی گئی اوروہ جھنڈا بعد میں بھی حضرت اُسامہؓ کے گھر میں ہی رہا یہاں تک کہ اُن کی وفات ہو گئی۔

حضرت ابوبکرؓ کا کبار صحابہؓ سے منکرینِ زکوٰۃ سے جنگ کی بابت مشورہ

ایک اور چیلنج جس کا حضرت ابوبکر صدّیقؓ کو سامنا کرنا پڑا وہ مانعین اور منکرینِ زکوٰۃ کا فتنہ تھا، کبار صحابہؓ سے اِن سے جنگ کی بابت مشورہ نیز پیشتر کی رائے کہ ہمیں الله اور اُس کے رسول پر ایمان لانے والوں سے ہرگز لڑنا نہیں چاہیئے کےتناظر میں حضورِ انور ایّدہ الله نے بیان فرمایا!حضرت ابوبکرؓ اِس رائے کے حامی تھے کہ منکرینِ زکوٰۃ سے جنگ کر کے بزور ادائے زکوٰۃ پر مجبور کرنا چاہیئے۔ اِس اَمر میں اُن کی شدّت کا یہ عالم تھا کہ بحث کرتے ہوئے پُر زور الفاظ میں فرمایا۔ والله! اگر منکرینِ زکوٰۃ مجھے ایک رسّی دینے سے بھی انکار کریں گے ، جسے وہ رسول اللهؐ کے زمانہ میں ادا کیا کرتے تھے تو بھی مَیں اُن سے جنگ کروں گا۔

دنیا کے موجودہ حالات کے تناظر میں اعادۂ دعائیہ تحریک

حضورِ انور ایّدہ الله نےتحریک فرمائی! دعا کریں الله تعالیٰ دونوں طرف کی حکومتوں کو عقل دے، سمجھ دے اور انسانیت کا خون کرنے سے یہ لوگ باز آ جائیں۔ ساتھ ہی یہ جنگ جو ہے ہمیں مسلمانوں کو بھی سبق لینا چاہیئے کہ کس طرح یہ لوگ ایک ہو گئے ہیں لیکن مسلمان باوجود ایک کلمہ پڑھنے کے کبھی ایک نہیں ہوتے۔۔۔ کم ازکم یہ اکائی کا سبق ہی اِن لوگوں سے سیکھ لیں ۔۔۔ اللہ تعالیٰ ۔۔۔اُمّت ِمسلمہ پر رحم کرے اور یہ اُسی صورت میں ہوسکتا ہے جب یہ لوگ زمانہ کے امام کو ماننے والے بھی ہوں اور جو اِسی مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے اِس زمانہ میں بھیجا ہے۔

مرحومہ سیّدہ قیصرہ ظفر ہاشمی صاحِبہ کا تفصیلی تذکرۂ خیر

خطبۂ ثانیہ سے قبل حضورِ انورایّدہ الله نے مرحومہ سیّدہ قیصرہ ظفر ہاشمی صاحِبہ اہلیہ مکرم ظفر اقبال ہاشمی صاحِب آف لاہورکا نماز کے بعد جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان کیا نیز تفصیلی ذکرِ خیر فرمایا۔

(خاکسار قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل آنلائن جرمنی)

Leave a Reply