سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 26؍اگست 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

فتح اَجنادین کا خط جب حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کے سامنے پڑھا گیا تو اُس وقت آپؓ مرض الموت میں مبتلا تھے، آپؓ کو اِس فتح نے خوش کر دیا اور آپؓ نے فرمایا! الحمدللّٰه! تمام تعریفیں الله کے لئے ہیں جس نے مسلمانوں کی مدد کی اور اِس سے میری آنکھوں کو ٹھنڈا کر دیا

حضور انور ایدہ الله نے تشہد، تعوذ اور سورۃالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے دشمن کو جارحیت سے روکنے کے لئے بجھوائے گئے لشکروں کے تذکرہ کے تسلسل میں چوتھے لشکر کی بابت بیان فرمایا۔

چوتھا لشکر بطرف شام حضرت عَمروؓ بن العاص کا تھا

حضرت ابوبکرؓ نے ایک لشکر حضرت عَمروؓ بن العاص کی قیادت میں بطرف شام روانہ کیا تھا، آپؓ شام جانے سے قبل خُزاعہ کے ایک حصہ کے تحصیل صدقات کے لئے مقرر کئے گئے تھے۔ فیصلہ ہونے پر آپؓ کو مدینہ بلایا گیا، یہاں آپؓ کو بغرض تیاریٔ لشکر مدینہ کے باہر خیمہ زن ہونے کے لئے حضرت ابوبکرؓ نے ارشاد فرمایا تاکہ لوگ آپؓ کے پاس آئیں۔ جب آپؓ نے روانہ ہونے کا ارادہ کیا تو آپؓ کو رخصت کرنے کے لئے حضرت ابوبکرؓ نکلے نیز تاکیدی نصائح فرمائیں، حضرت عَمروؓ نے عرض کیا! کتنا بہتر ہے میرے لئے کہ مَیں آپؓ کے گمان کو سچ کر دکھاؤں اور آپؓ کے رائے میرے بارہ میں خطاء نہ کرے۔

حضرت عَمروؓ بن العاص ہمراہ اپنے لشکر روانہ ہو گئے

آپؓ کی فوج چھ، سات ہزار کے درمیان اور منزل مقصود فلسطین تھی، آپؓ نے ایک ہزار مجاہدین پر مشتمل لشکر تیار کیا اور حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما کی قیادت میں روم کی پیش قدمی کی جانب روانہ کیا۔یہ دستہ رومیوں سے جا ٹکرایا اور دشمن کی قوت کو پارہ پارہ کر کےاُن پر فتح حاصل کی اور بعض قیدیوں کے ساتھ واپس ہؤا۔ حضرت عَمروؓ نے اِن قیدیوں سے پوچھ گچھ کی تو پتا چلا کہ رومی فوج رویس کی قیادت میں مسلمانوں پر اچانک حملہ کرنے کی تیاری میں ہے، اِن معلومات کی روشنی میں آپؓ نے اپنی فوج کو منظم کیا۔ جب رومی حملہ آور ہوئے تو مسلمان اُن کا حملہ روکنے میں کامیاب ہو گئے اور اُن کو واپس ہونے پر مجبور کر دیا، اِس کے بعد اُن پر جوابی حملہ کر کے دشمن کی قوت کو تباہ کر دیا نیز راہ فرار اختیار کرنے اور میدان چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ اسلامی فوج نے اُن کا پیچھا کیا اور ہزاروں رومی فوجی مارے گئے اور اِسی پر یہ معرکہ ختم ہو گیا۔

شام روم ہرقل اِن دنوں فلسطین میں تھا

جب اُسے مسلمانوں کی تیاریوں کی خبریں ملیں تو اُس نے علاقائی سرداروں کو جمع کیا اور اُن کے سامنے جوشیلی تقریریں کر کے اُنہیں مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے پر آمادہ کیا۔ فلسطین کے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف آمادۂ پیکار کر کے وہ دمشق آ یا، وہاں سے حِمس اور اَنطاکیہ پہنچا اور فلسطین کی طرح اِن علاقوں میں بھی اُس نے جوشیلی تقریریں کرکے وہاں کے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے پر آمادہ کیا۔ خود اَنطاکیہ کو ہیڈ کواٹر بنا کر مسلمانوں سے مقابلہ کی تیاریاں کرنے لگا۔ہرقل کے پاس فوج بہت زیادہ تھی، اِس لئے اُس نے یہ ارادہ کیا کہ مسلمانوں کے ہر لشکر کے بالمقابل الگ الگ لشکر بھیجے تاکہ مسلمانوں کے لشکر کے ہر حصہ کواپنے مد مقابل کے ذریعہ کمزور کر دے۔

حضرت ابوعُبیدہؓ جب جابیہ کے قریب تھے

آپؓ نے خبر ملنے پر حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کو بذریعہ خط شاہ روم ہرقل کے عزائم سے آگاہ کیا، آپؓ نے جوابًا تحریر فرمایا! اَنطاکیہ میں اُس کا قیام کرنا، اُس کی اور اُس کے ساتھیوں کی شکست اور تمہاری اور مسلمانوں کی فتح کا پیش خیمہ ہے۔

حضرت عَمروؓ بن العاص نے بھی بخدمت حضرت ابوبکرؓ خط لکھا

آپؓ نے جوابًا تحریر فرمایا! تمہارا خط مجھے موصول ہؤا جس میں تم نے رومیوں کے فوج اکٹھی کرنے کا ذکر کیا تو یاد رہے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کے ساتھ کثرت فوج کی بناء پر ہمیں فتح و نصرت نہیں عطاء کی، ہماری تو حالت یہ تھی کہ ہم آپؐ کے ہمراہ جہاد کرتے اور ہمارے پاس صرف دو گھوڑے ہوتے اور اونٹ پر بھی باری باری سواری کرتے لیکن اِس کے باوجود اللہ تعالیٰ ہمیں ہمارے دشمن پر غلبہ عطا ءفرماتا اور ہماری مدد کرتا۔

اللہ تعالیٰ نے مسلم فوج کا خوف ہرقل کے دل میں بٹھا دیا ہے

حضرت یزید بن ابو سفیان رضی الله عنہما نے بھی وہاں کے حالات لکھتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ سے مدد طلب کی جس پر آپؓ نے تحریر فرمایا! جب اِن سے تمہارا مقابلہ ہو تو اپنے ساتھیوں کو لے کر اُن پر ٹوٹ پڑو اَور قتال کرو، اللہ تعالیٰ تمہیں رسوا ءنہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبر دی ہے کہ بحکم الٰہی چھوٹا گروہ بڑے گروہ پر غالب آجاتا ہے اور اِس کے باوجود مَیں تمہاری مدد کے لیے مجاہدین پر مجاہدین بھیج رہا ہوں یہاں تک کہ تمہارے لئےکافی ہو جائیں گے اور مزید کی حاجت نہ محسوس کرو گے۔

حضرت ہاشمؓ بن عتبہ کو حضرت ابوعُبیدہؓ سے جا ملنے کا حکم

حضرت ابوبکرؓ نے شام میں بغرض مدد اسلامی افواج حضرت ہاشمؓ بن عتبہ کو ارشاد فرمایا! مسلمانوں نے مجھے خط لکھ کر اپنے دشمن کفار کے مقابلہ میں مدد طلب کی ہے تو تم اپنے ساتھیوں کو لے کر اُن کے پاس جاؤ، مَیں لوگوں کو تمہارے ساتھ جانے پر تیار کر رہا ہوں، تم یہاں سے روانہ ہو جاؤ یہاں تک کہ حضرت ابوعُبیدہؓ سے جا ملو۔

حضرت سعیدؓ بن عامر بن حذیم کا خیال

حضرت ابوبکر رضی الله عنہ اِنہیں جہاد شام پر بھیجنا چاہتے ہیں لیکن تاخیر پر حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئے اور مہم شام کی بابت اپنی گزارشات پیش کیں نیز خواہش جہاد کا اظہار کیا تو حضرت ابوبکرؓ نے آپؓ کو تیاریٔ جنگ کا حکم دیتے ہوئےفرمایا! مَیں شام کی طرف مسلمانوں کا ایک لشکر بھیجنے والا ہوں اور اِس پر تمہیں امیر مقرر کرتا ہوں، پھر آپؓ نے حضرت بلال رضی الله عنہ کو لوگوں میں اِس کا اعلان کرنے کا ارشاد فرمایا۔

حضرت بلال رضی الله عنہ کی خواہش جہاد

حضرت بلالؓ نے بخدمت حضرت ابوبکرؓ عرض کیا! آپؓ مجھے اجازت دیں کہ مَیں اپنے رب کی راہ میں جہاد کروں، مجھے بیٹھے رہنے سے جہاد زیادہ محبوب ہے۔ جس پر آپؓ نے ارشاد فرمایا! اگر تمہاری خواہش جہاد کرنے کی ہے تو مَیں تمہیں ٹھہرنے کا حکم کبھی نہیں دوں گا، مَیں تمہیں صرف آذان کے لئے چاہتا ہوں، اے بلال! مجھے تمہاری جدائی سے وحشت محسوس ہوتی ہے لیکن ایسی جدائی ضروری ہے جس کے بعد قیامت تک ملاقات نہ ہو گی۔اے بلال! تم عمل صالح کرتے رہنا، یہ دنیا سے تمہارا زاد راہ اور جب تک تم زندہ رہو گے تمہاری یاد باقی رکھے گا اور جب وفات پاؤ گے تو اِس کا بہترین ثواب عطاء کرے گا۔ حضرت بلالؓ نے عرض کیا!مَیں رسول اللہ ؐکے بعدکسی کے لئے آذان دینا نہیں چاہتا۔ پھر آپؓ حضرت سعیدؓ بن عامر بن حذیم کے ساتھ روانہ ہو گئے۔

جہادی وفود کا مدینہ میں آنے کا سلسلہ جاری رہا

اِس کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے پاس اور لوگ جمع ہوگئے جن پر آپؓ نے حضرت معاویہ رضی الله عنہ کو امیر مقرر فرمایا اور اُنہیں اپنے بھائی حضرت یزید بن ابوسفیان رضی الله عنہما سے مل جانے کا حکم دیا، آپؓ روانہ ہو کر اُن سے جا ملے۔ پھر حضرت حمزہؓ بن ابوبکرحمدانی ایک ہزار کی تعداد پر مشتمل یا اِس سے بھی زائد لشکر لے کر حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؓ نے اُن کی تعداد اور تیاری دیکھی تو بہت خوش ہوئے ۔ حضرت ابوبکرؓ کے ارشاد کی روشنی میں حضرت حمزہؓ مسلمانوں سے معلوم ہونے پر کہ آپؓ کے بجھوائے گئے تین اُمراء میں سے سب سے افضل اور بلحاظ صحبت نبی کریمؐ سب سے بہترین حضرت ابوعُبیدہؓ بن الجّراح ہیں تو آپؓ اُن سے جاملے۔

حضرت ابو عُبیدہؓ کے پے در پے خطوط کے نتیجہ میں

حضرت خالدؓ بن ولید کو شام بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا، آپؓ اِس وقت عراق میں تھے جب حضرت ابوبکرؓ نے آپؓ کو شام جانے اور وہاں اسلامی افواج کی امارت سنبھالنے کا حکم دیانیز حضرت ابو عُبیدہ رضی الله عنہ کو لکھا! مَیں نے شام میں مسلمانوں کی جنگ کی قیادت خالد رضی الله عنہ کو سونپ دی ہے، تم اِس کی مخالفت نہ کرنا، بات سننا اور حکم کی تعمیل کرنا۔جب حضرت خالدؓ بن ولید مسلمانوں کے ساتھ بُصریٰ پہنچے تو تمام لشکر یہاں جمع ہو گئے اور سب نے یہاں کی جنگ میں اُنہیں اپنا امیر بنا لیا، اُنہوں نے شہر کا محاصرہ کیا، یہاں کے باشندوں نے اِس پر صلح کی کہ مسلمانوں کو جزیہ دیں گے اور مسلمان اُن کی جانوں، اموال اور اولاد کو امان دیں گے۔

معرکہ اَجنادین (نواحی علاقہ جات فلسطین میں سے ایک مشہور بستی)

بُصریٰ کی فتح کے بعد حضرت خالدؓ ، حضرت ابو عُبیدہؓ ، حضرت شُرَحْبِیْلؓ ، حضرت یزید رضی الله عنہ کو ساتھ لے کر حضرت عَمروؓ بن العاص کی مدد کے لئے فلسطین کی طرف روانہ ہوئے۔حضرت عَمروؓ اُس وقت فلسطین کے نشیبی علاقوں میں مقیم اور اسلامی لشکر سے آکر ملنا چاہتے تھے مگر رومی لشکر اُن کے تعاقب میں تھا اور اُن کو جنگ پر مجبور کرنے کی کوشش میں تھا۔ رومیوں نے جب مسلمانوں کی آمد کے متعلق سنا تو وہ اَجنادین کی طرف ہٹ گئے۔ حضرت عَمروؓ نے جب اسلامی لشکروں کے متعلق سنا تو وہ وہاں سے چل پڑے یہاں تک کہ اِن سے جاملے اور پھر سب اَجنادین کے مقام پر جمع ہو گئے نیز رومیوں کے سامنے صف آراء ہو گئے۔رومی سپۂ سالار نے مسلمانوں کو کچھ دے دلا کر واپس بھیجنا چاہا، حضرت خالدؓ نے یہ سنا تو پیشکش بڑی حقارت سے ٹھکرا دی۔حضرت خالدؓ بن ولید نکلے اور لشکر کو ترتیب دیا، آپؓ لوگوں کے درمیان اُنہیں جہاد کی ترغیبؓ دلاتے ہوئے چلتے جاتے اور ایک جگہ نہ رکتے نیز لوگوں سے فرمایا! جب مَیں حملہ کروں تو تم بھی حملہ کر دینا۔اِس کے بعد دونوں لشکروں میں شدید لڑائی ہوئی نیز رومیوں نے بھاگ کر جان بچائی۔بغرض شکست مسلمانوں کے امیر کو دھوکہ سے قتل کرنے پر مبنی سازش کو عملی جامہ پہنانے میں ناکامی پر رومی امیر وَردان حضرت ضرار ؓ و دیگر سپاہیوں کے ہاتھوں اپنے بد انجام کو پہنچا، جب رومیوں کو اِس کی خبر ہوئی تو اُن کے حوصلے پست ہوگئے۔ اِس جنگ میں رومیوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب جبکہ مسلمانوں کی تعداد تیس ہزار اور بمطابق ایک روایت پینتیس ہزار تھی۔ اِس جنگ میں تین ہزار رومی مارے گئے اور اِن کا شکست خوردہ لشکردیگر کئی شہروں میں پناہ لینے پر مجبور ہؤا۔ اَجنادین کی فتح کے بعد حضرت خالدؓ بن ولید نے بذریعہ خط حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کو یہ خوشخبری سنائی۔

خطبۂ ثانیہ سے قبل حضور انور ایدہ الله نےاِس ابہام کی تصریح فرمائی کہ جنگ اَجنادین کب ہوئی نیز تفصیلات فتح دمشق اِنْ شَآءَ اللّٰهُ آئندہ بیان ہونے کا عندیہ دیا۔

(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل آن لائن جرمنی)

Leave a Reply