امیر المؤمنین سیّدنا حضرت خلیفتہ المسیحِ الخامس ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مؤرخہ 4؍مارچ 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد؍ٹلفورڈ یوکے
حضرت ابوبکر صدّیقؓ نے فرمایا ، دیکھو! خلافت کو قائم کرنا ضروری ہے، باقی تم جس کو چاہو خلیفہ بنا لو، مجھے خلیفہ بننے کی کوئی خواہش نہیں۔
حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا! الله تعالیٰ نے تمہارے معاملات کو ایک ایسے آدمی کے ہاتھوں میں دے دیا ہے جو تم میں سب سے زیادہ بہتر ہیں، جو آنحضرتؐ کے ساتھی ہیں اور ثَانِىَ اثْنَيْنِ اِذۡ ھُمَا فِی الۡغَارِ کے مصداق ہیں۔
جو آجکل کے حالات ہیں دنیا کے ، جنگوں کے، اِس کے لیئے دعا کریں ۔۔۔ اِن دنوں میں دُرود بھی بہت پڑھیں، اِستغفار بھی بہت کریں۔ الله تعالیٰ ہمارے گناہوں کو بھی معاف فرمائے اور دنیا کے لیڈروں کو بھی عقل اور سمجھ عطاء فرمائے۔

حضورِ انور ایّدہ الله نے تشہّد، تعوّذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضرت ابوبکر صدّیقؓ کے خلیفہ بننے کے بارہ میں چلنے والی بحث کے تناظرمیں ارشاد فرمایا۔

حضرت عمر ؓ کی تقریر السّنن الكبریٰ للنسائی میں

ثقیفۂ بنو ساعدہ میں جب انصار نے کہا کہ ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک تم میں سے، اِس پر حضرت عمرؓ نے کہا! ایک میان میں دو تلواریں تو نہیں ہو سکتیں، اِس طرح وہ ٹھیک نہیں رہیں گی۔

یہ تین خوبیاں کس کی ہیں؟

 نیز اُنہوں نے حضرت ابوبکرؓ کا ہاتھ پکڑا اَور عرض کیا یہ تین خوبیاں کس کی ہیں۔ اِذۡ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (التّوبة: 40) یعنی وہ جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غمّ نہ کر، یقینًا الله ہمارے ساتھ ہے۔ اُس کا ساتھی کون تھا؟ پھر کہا! اِذۡ ھُمَا فِی الۡغَارِ یعنی جب وہ دونوں غار میں تھے۔ وہ دونوں کون تھے؟ پھر اُنہوں نے کہا! لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا یعنی غمّ نہ کر یقینًا الله ہمارے ساتھ ہے۔ رسول اللهؐ کے علاوہ کس کا ساتھ ہے۔ یہ کہہ کر حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کر لی اور پھر لوگوں سے کہا تم بھی بیعت کر لو، چنانچہ لوگوں نے بیعت کر لی۔

بیعتِ ثقیفہ اور بیعتِ خاصہ

حضرت عمرؓ کے بعد حضرت ابو عُبیدہ ؓبن الجّراح، حضرت بشیرؓ بن سعد نے بیعت کی اور اِس طرح تمام انصار نے بھی حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کی۔ یہ بیعت اسلامی لٹریچر میں بیعتِ ثقیفہ اور بیعتِ خاصہ کے نام سے بھی مشہور ہے۔

حضرت سعدؓ بن عُبادہ نے بھی باقی انصار کے ساتھ بیعت کر لی تھی

بعض روایات میں یہ ذکر ملتا ہے، حضرت سعدؓ بن عُبادہ نے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت نہیں کی تھی جبکہ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اُنہوں نے بھی باقی انصار کے ساتھ بیعت کر لی تھی۔ چنانچہ تاریخِ طبری میں لکھا ہے کہ ساری قوم نے باری باری حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کی اور حضرت سعدؓ نے بھی بیعت کی۔

دیکھو خلافت کو قائم کرنا ضروری ہے باقی تم جس کو چاہو خلیفہ بنا لو

آنحضرتؐ کے بعد خلافت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت المصلح الموعودؓ فرماتے ہیں۔ دیکھ لو محمد رسول اللهؐ کے بعد خلافت ہو ئی اور پھر کیسی شاندار ہوئی، آپؐ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ خلیفہ ہوئے۔۔۔ اُس وقت حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا !دیکھو خلافت کو قائم کرنا ضروری ہے، باقی تم جس کو چاہو خلیفہ بنا لو، مجھے خلیفہ بننے کی کوئی خواہش نہیں ۔ فرمایا! یہ ابو عُبیدہؓ بن الجّراح ہیں ، اِن کو رسولِ کریمؐ نے امین الامّت کا خطاب عطاء فرمایا، تم اِن کی بیعت کر لو۔ پھر عمرؓ ہیں ، یہ اسلام کے لیئے ایک ننگی تلوار ہیں ، تم اِن کی بیعت کر لو۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا! ابوبکرؓ، اب باتیں ختم کی جیئے، ہاتھ بڑھائیے اور ہماری بیعت لی جیئے۔ حضرت ابوبکرؓ کے دل میں بھی الله تعالیٰ نے جرأت پیدا کر دی اور آپؓ نے بیعت لے لی۔

ثقیفۂ بنی ساعدہ کی بیعتِ عام کے بارہ میں مزید تفصیل

رسول اللهؐ کی وفات سوموار کو ہوئی، لوگ ثقیفۂ بنی ساعدہ میں حضرت ابوبکرؓ کی بیعت میں مشغول ہو گئے ، پھر سوموار کے بقیّہ دن اور منگل کی صبح کو مسجد میں بیعتِ عام ہوئی۔ حضرت انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ جب ثقیفۂ بنی ساعدہ میں بیعت ہو گئی تو دوسرے دن حضرت ابوبکرؓ بیٹھے، تو حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے اور حضرت ابوبکرؓ سے قبل تقریر کرتے ہوئے بعد از حمد وثناء نیز اپنی تفہیم کہ ہم پہلے فوت ہو جائیں گے ہمارا خیال تھااور آنحضرتؐ ہم میں سے آخری ہوں گے، ا رشاد فرمایا! بلاشبہ الله تعالیٰ نے تم میں وہ چیز چھوڑی ہے جس سے اُس نے رسول اللهؐ کو ہدایت دی اور اگر تم نے اُسے مضبوطی سے تھامے رکھا تو الله تعالیٰ تمہیں بھی ہدایت دے گا جیسا کہ اُس نے آنحضورؐ کو ہدایت دی۔ الله تعالیٰ نے تمہارے معاملات کو ایک ایسے آدمی کے ہاتھوں میں دے دیا ہے جو تم میں سب سے زیادہ بہتر ہیں، جو آنحضرتؐ کے ساتھی ہیں اور ثَانِىَ اثْنَيْنِ اِذۡ ھُمَا فِی الۡغَارِ کے مصداق ہیں یعنی وہ دو میں سے ایک تھا جب وہ دونوں غار میں تھے۔ پس اُٹھو اور اِس کی بیعت کرو۔ پس لوگوں نے بیعتِ ثقیفہ کے بعد حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کی۔

بیعتِ عام والے دن حضرت ابوبکرؓ کا ارشاد فرمودہ خطبہ

آپؓ نے الله کی حمد و ثناءکے بعد فرمایا! اَے لوگو، یقینًا مَیں تم پر والی مقرر کیا گیا ہوں لیکن مَیں تم میں سے سب سے بہتر نہیں ہوں ۔ اگر مَیں اچھا کام کروں تو میرے ساتھ تعاون کرو اور کج روی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کر دو۔ سچّائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے ، تمہارا ضعیف فرد بھی میرے نزدیک قوّی ہے اور جب تک مَیں دوسروں سے اُس کا حقّ نہ دِلا دُوں اور تمہارا قوّی شخص بھی میرے نزدیک ضعیف ہے یہاں تک کہ مَیں اِس سے دوسروں کا حقّ نہ حاصل کر لوں، اِنْ شَآء الله ! جو قوم الله کے رستہ میں جہاد کو چھوڑ دیتی ہے ، الله اُس کو ذلیل و خوار کر دیتا ہے اور جس قوم میں بدّ کاری پھیل جاتی ہے ، الله اُس کو مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے ۔ اگر مَیں الله اور رسول اللهؐ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرو اَور اگر مَیں الله اور رسول اللهؐ کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت لازم نہیں ۔ نماز کے لیئے کھڑے ہو جاؤ، الله تم سب پر رحم فرمائے۔

حضرت علیؓ کی حضرت ابوبکرؓ کی بیعت

اِس بارہ میں مختلف روایات ملتی ہیں ، بعض روایات میں ہے کہ حضرت علیؓ نے چھ ماہ تک بیعت نہیں کی اور حضرت فاطمہؓ کی وفات کے بعد بیعت کی اور بعض روایات میں ہے کہ آپؓ نے پوری رضا ورَغبت کے ساتھ فورًا حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کر لی تھی۔

یہی سچّ ہے ، حضرت علیؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو کبھی نہیں چھوڑا

علّامہ ابنِ کثیرؒ کہتے ہیں ۔حضرت علیؓ ابنِ طالب نے نبیٔ کریمؐ کی وفات کے بعد پہلے دن یا دوسرے دن حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کر لی تھی اور یہی سچّ ہے کیونکہ حضرت علیؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو کبھی نہیں چھوڑا اور نہ ہی حضرت ابوبکرؓ کے پیچھے نماز کی ادائیگی اُنہوں نے ترک کی۔

پگڑی بھی نہ باندھی اور فورًا ٹوپی سے ہی بیعت کرنے کو آ گئے

حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام ارشاد فرماتے ہیں ۔حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ نے اوّل اوّل حضرت ابوبکرؓ کی بیعت سے بھی تخلّف کیا تھا مگر پھر گھر جاکر خدا جانے ایک دفعہ کیا خیال آیا کہ پگڑی بھی نہ باندھی اور فوراً ٹوپی سے ہی بیعت کرنے کو آگئے اور پگڑی پیچھےمنگوائی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اُن کےدل میں خیال آ گیا ہو گا کہ یہ تو بڑی معصیّت ہے ، اِسی واسطے اتنی جلدی کی کہ پگڑی بھی نہ باندھی اور فورًا ٹوپی سے ہی بیعت کرنے کو آ گئے اور پگڑی پیچھے منگوائی۔

الله اکبر! محمد صلی الله علیہ وسلم کی بھی کیا شان ہے

حضرت المصلح الموعودؓ ارشاد فرماتے ہیں ۔دیکھو! حضرت ابوبکرؓ کی اسلام سے پہلے کیا حالت تھی۔جب خلیفہ ہوئے آپؓ کے والد زندہ تھے ، کسی نے جا کر اُن کو خبر دی کہ مبارک ہو ابوبکرؓ خلیفہ ہو گیا ہے، اُنہوں نے پوچھا کہ کون سا ابوبکر؟ اُس نے کہا! آپؓ کا بیٹا۔ اِس پر بھی اُنہیں یقین نہ آیا اور کہا! کوئی اور ہو گا۔ لیکن جب اُن کو یقین دلایا گیا تو اُنہوں نے کہا، الله اکبر! محمدؐ کی بھی کیا شان ہے کہ ابو قُحافہ کے بیٹے کو عربوں نے اپنا سردار مان لیا۔ غرض وہ ابوبکرؓ جو دنیا میں کوئی بڑی شان نہ رکھتا تھا محمدؐ کے طفیل اِس قدر عزّت پا گیا کہ اب بھی لاکھوں انسان اُس کی طرف اپنے آپ کو فخر کے ساتھ منسوب کرتے ہیں۔

یقینًا سمجھوکہ الله تعالیٰ کسی کا احسان اپنے ذمّہ نہیں رکھتا

حضرت خلیفتہ المسیحِ الاوّلؓ بیان فرماتے ہیں۔ یقینًا سمجھوکہ الله تعالیٰ کسی کا احسان اپنے ذمّہ نہیں رکھتا، وہ اِس سے ہزاروں، لاکھوں گُنا زیادہ دے دیتا ہے جس قدر کوئی خدا کے لیئے دیتا ہے۔ دیکھو حضرت ابوبکرؓ نے مکّہ میں ایک معمولی کوٹھا چھوڑا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے اِس کی کس قدر، قدر کی ۔ اِس کے بدلہ میں اُسے ایک سلطنت کا مالک بنا دیا۔

حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے متعلق رسولِ کریمؐ کی ایک رؤیا

حضرت عبداللہؓ بن عمرؓ سے روایت ہے، نبی ؐ نے فرمایا! خواب میں مجھے دکھایا گیا کہ مَیں ایک کنویں پر کھڑا ڈول سے جو چرخی پر رکھا ہؤا تھا، پانی کھینچ کر نکال رہا ہوں۔ اتنے میں ابوبکرؓ آئے اور اُنہوں نے ایک یا دو ڈول کھینچ کر اِس طور سے نکالے کہ اُن کوکھینچنے میں کمزوری تھی اور اللہ اُن کی کمزوری پر پَردہ پوشی کرے گا اور اُن سے درگزر فرمائے گا۔ پھر عمر ؓبن خطاب آئے اور وہ ڈول بڑے ڈول میں بدل گیا تو میں نے کوئی شَہ زور نہیں دیکھا جو ایسا حیرت انگیز کام کرتا ہو جیسا عمرؓ نے کیا، اتنا پانی نکالا کہ لوگ سیر ہو گئے اور اپنے اپنے ٹھکانوں پر جا بیٹھے۔

حضرت ابوبکرؓ کی ذاتی رؤیا اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ارشاد فرمودہ تعبیر

حضرت ابوبکرؓ نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ اُن کے جسم پر ایک یمنی چادر کا جوڑا ہے لیکن اُس کے سینہ پر دو دَاغ ہیں ۔ آپؓ نے رسول اللهؐ کے سامنے یہ خواب بیان کیا تو آپؐ نے فرمایا! یمنی جوڑے سے مراد یہ ہے کہ تمہیں اچھی اَولاد ملے گی اور دو داغوں سے مراد دو سال کی امارت ہے یعنی تم دو سال مسلمانوں کے حاکم رہو گے۔

انتخابِ خلافت کے بعد حضرت ابوبکرؓ لیئے وظیفہ مقرر کرنے کا ذکر

خلافت کے بعد آپؓ مدینہ تشریف لے آئے اور وہیں قیام کر کیا۔ آپؓ نے اپنے معاملات پر غور کیا اور کہا کہ بخدا! تجارت کرتے ہوئے لوگوں کے معاملات ٹھیک نہیں ہو سکیں گے، اِس خدمت کے لیئے فراغت اور پوری توجّہ کی ضرورت تھی، اِدھر میرے اہل و عیال کے لیئے بھی کچھ ضروری ہے۔ اِس لیئے آپؓ نے تجارت چھوڑ دی اور بیت المال میں سے اپنی اور اپنے گھر والوں کی ضروریات کے لیئے روزانہ خرچ لینے لگے۔ آپؓ کے ذاتی مصارف کے لیئے سالانہ چھ ہزار دِرہم کی رقم منظور کی گئی۔

 حضرت ابوبکرؓ کا بوقتِ قُربِ وفات رشتہ داروں کو حکم

 لیکن جب آپؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو اُنہوں نے اپنے رشتہ داروں کو حکم دیا کہ جو وظیفہ مَیں نے بیت المال سے لیا ہے وہ سارے کا سارا واپس کر دیا جائے اور اِس کی ادائیگی کے لیئے میری فلاں فلاں زمین بیچ دی جائے اور آج تک مسلمانوں کا جو مال مَیں نے اپنے اوپر خرچ کیا ہے ، اِس زمین کو فروخت کر کے وہ پوری کی پوری رقم ادا کر دی جائے۔

اَے ابوبکر صدّیقؓ !تم نے اپنے جانشین پر بہت بھاری بوجھ ڈال دیا ہے

 چنانچہ جب اُن کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے اور وہ رقم اُن کے پاس پہنچی تو وہ رو پڑے اور کہا! اَے ابوبکر صدّیقؓ ، تم نے اپنے جانشین پر بہت بھاری بوجھ ڈال دیا ہے۔

خلافتِ راشدہ کا ایک مختصر، اہم ترین اور سنہری دَور

حضرت ابوبکر صدّیقؓ کا دورِ خلافت چاروں خلفائے راشدین میں سے مختصر دَور تھا جو کہ تقریبًا سوا دو سال پر مشتمل تھا۔ لیکن یہ مختصر سا دَور، خلافتِ راشدہ کا ایک اہم ترین اور سنہری دَور کہلانے کا مستحق تھا کیونکہ حضرت ابوبکرؓ کو سب سے زیادہ خطرات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا اور پھر خدا تعالیٰ کی غیر معمولی تائید و نصرت اور فضل کی بدولت، آپؓ کی کمال شجاعت اور جوانمردی اور فہم و فراست سے تھوڑے ہی عرصہ میں دہشت و خطرات کے سارےبادل چھٹ گئے اور سارے خوف امن میں تبدیل ہو گئے اور باغیوں اور سرکشوں کی ایسی سرکُوبی کی گئی کہ خلافت کی ڈولتی ہوئی عمارت مستحکم اور مضبوط بنیادوں پر قائم ہو گئی۔

ابتدائے خلافت میں ہی پانچ قسم کے ہم و غمّ اور مصائب کا سامنا

خلافت کے آغاز میں حضرت ابوبکر صدّیقؓ کو جن مشکلات اور خطرات کا سامنا کرنا پڑا اُن کا ذکر حضرت اُمّ المؤمنین، حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا نے بھی فرمایا ہے۔ آپؓ کو ابتداء میں ہی پانچ قسم کے ہم و غمّ اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ آنحضرتؐ کی وفات اور جدائی کا غمّ، انتخابِ خلافت اور اُمّت میں فتنہ اور اختلاف کا خوف و خطرہ، لشکرِ اُسامہؓ کی روانگی کا مسئلہ، مسلمان کہلاتے ہوئے زکوٰۃ دینے سے انکار اور مدینہ پر حملہ کرنے والے جس کو تاریخ میں فتنۂ مانعینِ زکوٰۃ کہا جاتا ہے، اور فتنۂ اِرتداد یعنی ایسے سرکش اور باغی جنہوں نے کھلم کھلا بغاوت اور جنگ کا اعلان کر دیا، اِس بغاوت میں وہ شامل ہو گئے جنہوں نے اپنے طور پر نبی ہونے کا بھی دعویٰ کیا۔ خوف کی اِن سب حالتوں اور مصائب کا قَلع قَمع کرنے میں جو کامیابی الله تعالیٰ نے حضرت ابوبکرؓ کو عطاء فرمائی، اِس کے تفصیل حضورِ انور ایّدہ الله نے آئندہ بیان ہونے کا عندیہ دیا نیز فرمایا! لیکن اِس سے قبل حکم و عدل حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ کا ایک تفصیلی اقتباس پیش ہے، جس میں آپؑ نے حضرت ابوبکرؓ کو حضرت موسیٰؑ کے پہلے خلیفہ حضرت یُوشع ؑبن نُون کے ساتھ مشابہت دیتے ہوئے ، آپؓ کو پیش آنے والے مسائل و مصائب اور فتوحات و کامیابیوں کا تذکر بیان فرمایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں۔

ابوبکرؓ بن قُحافہ اور یشوعؑ بن نُون ایک ہی شخص ہے

جس آیت سے دونوں سلسلوں یعنی سلسلۂ خلافتِ موسویہ اور سلسلہ خلافتِ محمدیہ میں مماثلت ثابت ہے یعنی جس سے قطعیٔ اور یقینی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ سلسلۂ نبوّتِ محمدیہ کے خلیفے، سلسلۂ موسویہ کے مشابہ و مماثل ہیں، وہ یہ آیت ہے۔ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّھُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِھِمۡ (النّور: 56) یعنی خدا نے اُن ایمان داروں سے جو نیک کام بجا لاتے ہیں وعدہ کیا ہے جو اُن میں سے زمین پرخلیفے مقرر کرے گا، اُنہی خلیفوں کی مانند جو اُن سے پہلے کیئے تھے۔ اب جب ہم مانند کے لفظ کو پیشِ نظر رکھ کر دیکھتے ہیں جو محمدی خلیفوں کی موسوی خلیفوں سے مماثلت واجب کرتا ہے تو ہمیں ماننا پڑتا ہے جو اِن دونوں سلسلوں کے خلیفوں میں مماثلت ضروری ہے اور مماثلت کی پہلی بنیاد ڈالنے والا حضرت ابوبکرؓ اور مماثلت کا آخری نمونہ ظاہر کرنے والا وہ مسیح خاتم خلفاءِ محمدیہ ہے جو سلسلۂ خلافتِ محمدیہ کا سب سے آخری خلیفہ ہے۔ سب سے پہلا خلیفہ جو حضرت ابوبکرؓ ہے وہ یُوشع بن نُون کے مقابل اور اُن کا مثیل ہے۔ جس کو خدا نے آنحضرتؐ کی وفات کے بعد خلافت کے لیئے اختیار کیا اور سب سے زیادہ فراست کی روح اُس میں پھونکی یہاں تک کہ مشکلات جو عقیدۂ باطلہ حیاتِ مسیح کےمقابل میں خاتم الخلفاء کو پیش آنی چاہیئے تھی، اُن تمام شبہات کو حضرت ابوبکرؓ نے کمال صفائی سے حل کر دیااور تمام صحابہؓ میں سے ایک فرد بھی ایسا نہ رہا جس کا گزشتہ انبیاء علیہم السّلام کی موت پر اعتقاد نہ ہو گیا ہو۔ بلکہ تمام امور میں ، تمام صحابہؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی ایسی اطاعت اختیار کر لی جیسا کہ حضرت موسیٰؑ کی وفات کے بعد بنی اسرائیل نے حضرت یشوع بن نُون کی اطاعت کی تھی اور خدا بھی موسیٰؑ اور یشوع بن نُون کے نمونہ پر جس طرح آنحضرتؐ کے ساتھ تھا اور آپؐ کا حامی اور مؤیّد تھا، ایسا ہی ابوبکر صدّیقؓ کا حامی اور مؤیّد ہو گیا۔ درحقیقت خدا نے یشوع بن نُون کی طرح اُس کو ایسا مبارک کیا جو کوئی دشمن اِس کا مقابلہ نہ کر سکا ۔۔۔تناسب اور تشابہ واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا ابوبکرؓ بن قُحافہ اور یشوع بن نُون ایک ہی شخص ہے۔۔۔ مزید آیتِ استخلاف کی روشنی میں آپؑ فرماتے ہیں، دیکھو اِس آیت میں صاف طور پر فرما دیا ہے کہ خوف کا زمانہ بھی آئے گا اور امن جاتا رہے گا مگر خدا اُس خوف کے زمانہ کو پھر امن کے ساتھ بدل دے گا۔ سو یہی خوف یشوع بن نُون کو بھی پیش آیا تھا اور جیسا کہ اُس کو خدا کے کلام سے تسلّی دی گئی ایسا ہی حضرت ابوبکرؓ کو بھی خدا کے کلام سے تسلّی دی گئی۔

آجکل کے دنیا کے جنگوں کے حالات کے لیئے دعا کریں

 پھر فرمایا! جو آجکل کے حالات ہیں دنیا کے، جنگوں کے، اِس کے لیئے دعا کریں کہ خوفناک سے خوفناک تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اب تو ایٹمی جنگ کی بھی دھمکیاں دی جانے لگی ہیں۔ جس کے، جیسا کہ پہلے بھی مَیں نے کہا ہے اور کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ خوفناک نتائج ہوں گے اور اِس کے نتائج اگلی نسلوں کو بھی بھگتنے پڑیں گے۔ الله تعالیٰ ہی ہے جو اِن لوگوں کو عقل دے۔

اِن دنوں میں دُرود بھی بہت پڑھیں، اِستغفار بھی بہت کریں

 اِن دنوں میں دُرود بھی بہت پڑھیں، اِستغفار بھی بہت کریں۔ الله تعالیٰ ہمارے گناہوں کو بھی معاف فرمائے اور دنیا کے لیڈروں کو بھی عقل اور سمجھ عطاء فرمائے۔

اِس دعا کو بھی آجکل بہت زیادہ پڑھنے کی ضرورت ہے

حضرت مسیحِ موعودؑ نے ایک وقت میں جماعت کو خاص طور پر تلقین فرمائی تھی کہ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَةً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرۃ: 202)؛ کی دعا بہت پڑھا کرو اور فرمایا تھا کہ رکوع کے بعد کھڑے ہو کر یہ دعا کیا کریں۔ تو اِس کو بھی آجکل بہت زیادہ پڑھنے کی ضرورت ہے، الله تعالیٰ حسنات سے بھی نوازے اور ہر قسم کے آگ کے عذاب سے سب کو بچائے۔

مکرم ابو الفرج الحسنی صاحِب آف شام کا تفصیلی تذکرۂ خیر

حضورِ انور ایّدہ الله نے خطبۂ ثانیہ سے قبل مرحوم مکرم ابو الفرج الحسنی صاحِب آف شام کا تفصیلی تذکرۂ خیر نیز نماز کے بعد اُن کا جنازہ غائب پڑھانے کا ارشاد فرمایا۔

(خاکسار قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل آنلائن جرمنی)

Leave a Reply