اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۱؍اگست ۲۰۲۳ء کومسجد مبارک، اسلام آباد،ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت دانیال تصور صاحب مربی سلسلہ کے حصے ميں آئي۔ تشہد، تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعدحضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی جماعت پرہر دن اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش ہوتی ہے۔ اس کا ذکر جلسہ کی رپورٹ میں ہوتا ہے لیکن مختصر وقت میں سب کچھ بیان کرنا ممکن نہیں۔ کس طرح اللہ تعالیٰ فضل فرماتا ہے؟ کس طرح لوگوں کے دلوں کو کھولتا ہے؟ کس طرح ایمانوں کو مضبوط کرتا ہے؟ کس طرح دشمنوں کو ناکام کرتا ہے؟ ان میں سے چند آج بھی بیان کروں گا کیونکہ

یہ واقعات بہت سے احمدیوں کے دلوں میں ایمان کی مضبوطی کا باعث بنتے ہیں

کنشاسا کےلوکل مشنری حمید صاحب لکھتے ہیں کہ ویرا شہر میں ہمارے ریڈیو پروگرام کو سُن کرمقامی امام مسجد عیسیٰ صاحب نے جماعت سے رابطہ کیااور مشن ہاؤس آئے، جماعت کے پیغام کو سمجھا اور بیعت کرلی۔ پھراپنے گاؤں جا کر تبلیغ کی اور چوبیس افراد احمدیت میں داخل ہوئے۔ بعد میں ہمارے مبلغ نے اُس گاؤں کا دورہ کیا اور مزید آٹھ افراد جماعت میں داخل ہوئے۔اس طرح وہاں نئی جماعت قائم ہوگئی جبکہ دوسری طرف پاکستانی علماء سوائے مخالفت کے اور کچھ نہیں جانتے۔

کنشاسا کے ایک صوبے مائین دومبےکے ایک گاؤں میں معلم عمر منور صاحب کو تبلیغ کے لیے بھیجا گیا۔وہاں انہوں نے پمفلٹ تقسیم کیےجس کے دوران بعض شریر لوگوں نے پتھر مارےاور شور مچایا۔معلم صاحب پتھروں سے بچتے ہوئے تبلیغ کرتے رہے۔

لوگ ان کے صبر و تحمل سے بہت متاثر ہوئے۔وہاں کی مسجد میں جا کر انہوں نے لوگوں کے سوالات کے تسلی بخش جوابات دیے۔

کچھ لوگوں نے فساد کیا لیکن لوگوں کے بُرا بھلا کہنے پر چلے گئے۔ امام صاحب جماعت کے وفد کو گھر لے گئےوہاں کچھ اور افراد بھی تھے۔ چالیس بیالیس افراد نے جماعت کی تبلیغ سے متاثر ہوکر بیعت کرلی اور نئی جماعت قائم ہوگئی۔

گنی بساؤ کے امام تمانے کہتے ہیں کہ آج تک ہم جماعت کے بارے میں یہی سنتے آئے ہیں کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن و حدیث کو نہیں مانتے۔ انہوں نے جلسہ کا پروگرام دیکھا اور کہا کہ آج ہم نے جلسہ میں آپ کے خلیفہ کو دیکھا اور سنا۔انہوں نے اللہ تعالیٰ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن و حدیث کی نصائح فرمائی ہیں۔

مجھے یقین ہوگیا ہے کہ جماعت کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا ہورہاہےاور جھوٹا پروپیگنڈا ہمیشہ الٰہی جماعتوں کے خلاف ہوتا ہے اس لیے میں آج سے جماعت احمدیہ میں داخل ہوتا ہوں۔

اللہ کے فضل سے یہ تبلیغ بھی کررہے ہیں اور نئی جماعتیں بھی قائم ہورہی ہیں۔ پس ہمارے مخالف بھی جو پاکستان میں بھی ہیں صرف مخالفت برائے مخالفت نہ کریں بلکہ ہماری تعلیم کو سُنیں، پڑھیں ،سمجھیں پھر جو اعتراض ہے پیش کریں۔یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بار بار فرمایا ہے کہ تم لوگ یونہی مخالفت کرتے ہو پہلے میری بات تو سنو۔

امیر صاحب لائبیریا نے لکھا کہ دو سال قبل نمبا کاؤنٹی کے ایک ٹاؤن میں کچھ لوگ احمدیت میں داخل ہوئےجو پہلےعیسائی یا لامذہب تھے۔ بیعت کے بعدایک گھر کے برآمدے میں ان کی نماز اور تربیت کا انتظام کیا گیا۔مبلغ مرتضیٰ صاحب نے ایک دن نماز کے بعدمسجد بنانے کے لیے دعا کی تحریک کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مناسب زمین عطا فرمائے۔

ایک لامذہب شخص ڈاہن نے کہا کہ میرے پاس ایک پلاٹ ہے میں اسے مسجد کے لیے دیتا ہوں اور کچھ دن بعداُس نے بیعت بھی کرلی

لوگوں نے چیف کو شکایت کی لیکن مسجد مکمل ہوگئی۔اس علاقے میں یہ پہلی مسجد ہے مسجد نور۔ اس طرح غیر مسلم اور دہریت کے ماننے والے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہ صرف اللہ تعالیٰ کی ہستی پر یقین رکھ رہے ہیں بلکہ اسلام کو سچا مذہب سمجھ کر تسلیم بھی کررہے ہیں۔

برونڈی کے ایک قصبہ میں سنی مسجد کے امام نے بہت کوشش کی کہ جماعت کی مسجد کو بند کروایا جائے لیکن اس کی ایک نہ چلی۔ ہمارے معلم صاحب کو بلایا اور وفات مسیح کے بارے میں بحث شروع ہوئی ہمارے معلم نے جب دلائل دیے تو ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا اور جماعت پر کفر کا فتویٰ لگادیا۔ انہی کے ایک شخص نے کہا کہ جماعت کا اسلام سمجھ میں آتا ہے لیکن آپ کا نہیں۔ آپس میں ہی ان کی لڑائی ہوگئی اور حکومت نے تین ماہ کے لیے اُن کی مسجد کو بند کردیا۔اب یہ طریق نام نہاد علماء پاکستان کی طرح ہر جگہ اختیار کررہے ہیں کہ احمدیوں کی مسجدیں بند کرواؤ یا مینار اور محرابیں گرادو جبکہ

پاکستان کے کسی قانون میں نہیں لکھا کہ احمدیوں کو مینار بنانے کی اجازت نہیں ہےلیکن حکومت ان نام نہادمولویوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہے اور یہ مولوی نقصان پہنچانے کی اپنی پوری کوشش کررہے ہیں لیکن انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن یہ خود ہی سب مر جائیں گے۔

پاکستان میں ہمارے قرآن کی اشاعت پر پابندی ہے ترجمہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بعض لوگوں پر ایسے کیسز درج ہوئے ہیں کہ تم قرآن کیوں سن رہے تھے۔یہ نام نہاد مسلمانوں کا اسلام ہے۔ اس کے مقابل پر اللہ تعالیٰ ہمارے راستے کھول رہا ہے۔ ہم دنیا کے مختلف ممالک میں اشاعت قرآن کریم کس طرح کررہے ہیں۔تنزانیہ کے ایک معلم صاحب نے بتایا کہ تیس کلومیٹر دُور سے ایک شخص کا فون آیا کہ وہ قرآن کریم کا سواحیلی ترجمہ خریدنا چاہتے ہیں۔ اُسے بتایا گیا کہ اُن کے علاقے میں مل جاتا ہے لیکن اُس نے کہا کہ مجھے جماعت کا ترجمہ اور تفسیرپسند ہے اور یہی چاہیے۔

مغربی دنیا میں بھی بعض ممالک جیسے سویڈن اور ڈنمارک وغیرہ میں قرآن کریم کی توہین کی جارہی ہے وہیں جب اسلام کی خوبصورت تعلیم پیش کی جاتی ہے تو مخالفین کے رویے بدل جاتے ہیں۔

آج جماعت احمدیہ ہی قرآن کریم کے مقام کو بلند کرنے اور اس کی تعلیم پھیلانے میں کوشاں ہے۔

حضور انور نے آسام، گنی بساؤ،مالی اور تاجکستان میں پیش آنے والے ایمان افروزواقعات کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا کہ

فلپائن کےایک جزیرے میں ۱۳۹؍بیعتیں ہوئیں جن میں دو پرنسپل اور ایک امام مسجدبھی شامل ہیں۔اب تک چار امام مسجد احمدی ہوچکے ہیں۔

ایک امام کا کہنا ہے اب یہ مسجد بھی جماعت کی ہے۔مسجد کے ساتھ ملحقہ زمین بھی ایک شخص نے ہبہ کی ہےجہاں مشن ہاؤس بنانے کا ارادہ ہے۔

مالی کے ریجن سکاسکو کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک شخص مشن ہاؤس آیا اور بیعت کرنے کا کہا۔اُس نے بتایا کہ ایک دن جماعت کا ریڈیوسنتے سنتے آنکھ لگ گئی خواب دیکھا کہ دو تصویریں ہیں ایک چھوٹی اور ایک بڑی۔ بچے شور کررہے ہیں کہ امام مہدی آگئے ہیں۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اورخلفاء کی تصویریں دیکھیں اور حضرت مسیح موعود ؑکی بڑی تصویر اور میری تصویر دیکھی تو پہچان لیا کہ یہی تو خواب میں دیکھاتھا۔

برکینا فاسو مہدی آباد کے ایک ناصر سعید و جیکا صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب ہمارے گاؤںکی اکثریت نے احمدیت قبول کرلی تو ہمارے ایک عزیز نے ہمیں سعودی عرب بلایا اور خانہ کعبہ دکھا کر کہا کہ وہابیت اختیار کرو احمدیت چھوڑ دو۔ میں نے کہا

اس مقدس مقام کے سائے میں کھڑا ہوکر دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں کوئی ایسا موقع نہ آئے کہ مجھے احمدیت چھوڑنی پڑے اللہ تعالیٰ مجھے اس سے پہلے حالت ایمان میں موت دے دے۔

ان کا عزیز برکینا فاسو ملنے واپس آیا تو الحاج ابراہیم صاحب نے تبلیغ کی اوروہ احمدی ہوگیا۔کہتے ہیں کہ جو ہمیں احمدیت چھوڑنے کا کہہ رہا تھا خود احمدیت کا شکار ہوگیا۔

نائیجیریاکے رہائشی ایک شخص کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔اس سے قبل وہ احمدی مخالف گروہ کے سرگرم رکن تھے۔ احمدیت قبول کرنے کے بعد شدید مخالفت کا سامناکیا۔ایک روز کھیتوں میں کام کررہے تھے شدید طوفان آیا۔ مخالفین کی یہ بات ذہن میں آئی کہ ایک روز تم کام سے واپس آؤگے تو اپنا گھر تباہ و برباد دیکھو گے۔ دعا کی کہ اے اللہ !اگر یہ جماعت تیری جماعت ہے اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام وہی موعود مہدی ہیں جن کی خوشخبری رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی تو میرا گھر گرنے نہ دینا۔واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ہر کمرہ محفوظ تھا کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا تھا جبکہ اِرد گِرد کے تمام گھر تباہ ہوگئے تھے۔ مجھے یقین ہوگیا کہ یہ ایک الٰہی جماعت ہے۔

دنیا کے مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ کی تائیدات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ نظر آتی ہیں جنہوں نے ہمیں حقیقی اسلام کی تعلیم دی۔یہ واقعات احمدیت کی سچائی کی دلیل ہیں اور لوگوں کے ایمان کو مضبوط کررہے ہیں۔اللہ تعالیٰ دنیا کی بھی نظریں کھولے اور ایمان اور یقین کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

حضور انور نے فرمایا کہ ان دنوں میں کووڈ کی وبا دوبارہ پھیل رہی ہے لوگوں کو احتیاط کرنی چاہیے

حضور انور نے خطبہ جمعہ کے آخر پر مکرمہ امۃ الہادی صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر میرمحمد اسماعیل صاحبؓ، مکرم ثاقب کامران صاحب ،واقف زندگی و نائب وکیل سمعی و بصری، ان کے بیٹے عزیزم آرب کامران اور مکرم پروفیسرڈاکٹر محمد اسحاق داؤدا صاحب آف بینن کی وفات پر ان کی جماعتی خدمات کا تذکرہ فرمایا اور بعد ازنماز جمعہ ان مرحومین کی نماز جنازہ غائب پڑھانے کا بھی اعلان فرمایا۔

٭…٭…٭

Leave a Reply