آنحضرت صلی الله علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا! ابوبکر مجھے اتنے محبوب ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کے سواء کسی کو خلیل بنانا جائز ہوتا تو مَیں اِن کو خلیل بناتا مگر اب بھی یہ میرے دوست اور صحابی ہیں
حضور انور ایدہ الله نے تشہد، تعوذ اور سورۃالفاتحہ کی تلاوت کے بعد مناقب حضرت ابوبکر صدیقؓ کے تذکرہ کے تسلسل میں ارشاد فرمایا۔
ستّر صحابہ کی جماعت میں حضرت ابوبکرؓ و حضرت زُبیرؓ بھی شامل تھے
وہ لوگ جنہوں نے الله اور رسول کو لبّیك کہا بعد اِس کے کہ اُنہیں زخم پہنچ چکے تھے، اِن میں سے اُن لوگوں کے لئے جنہوں نے احسان کیا اور تقویٰ اختیار کیا، بہت بڑا اَجر ہے (اٰل عمرٰن: 173) ، اِس آیت کے بارہ میں حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے عُروہؒ سے فرمایا! اے میری بہن کے بیٹے، تیرے والد حضرت زُبیرؓ اور حضرت ابوبکرؓ ا ُن میں سے تھے کہ جب رسول الله ؐ کو اُحد کے دن جو تکلیف پہنچی، وہ پہنچی اور مشرکین چلے گئے تو آپؐ کو اندیشہ ہؤا کہ واپس آئیں گے، آپؐ نے فرمایا! اِن کے پیچھے کون جائے گا؟ تو اُن میں سے ستّر آدمیوں نے اپنے آپ کو پیش کیا۔
مَیں اِس لئے روتی ہوں کہ اب وحی آسمان سے منقطع ہو گئی ہے
حضرت انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے بعد وفات رسول الله ؐ حضرت عمرؓ سے کہا! ہمارے ساتھ اُمّ ایمنؓ کی طرف چلیں، ہم اُن کی زیارت کریں، جس طرح آپؐ اُن سے ملنے کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔ حضرت انسؓ نے کہا! جب ہم اُن کے پاس پہنچے تو وہ رونے لگیں، اُن دونوں نے کہا! آپؓ کیوں روتی ہیں؟جو بھی الله کے پاس ہے وہ اُس کے رسولؐ کے لئے بہتر ہے۔ وہ کہنے لگیں مجھے معلوم ہے لیکن مَیں اِس لئے روتی ہوں کہ اب وحی آسمان سے منقطع ہو گئی ہے۔ حضرت اُمّ ایمنؓ نے اِن دونوں کو بھی رُلا دیا۔
صرف ابوبکرؓ ایسا تھا جس میں مَیں نے کوئی کجی نہیں دیکھی
نبی کریمؐ نے فرمایا۔اے لوگو! الله نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کیا اور تم نے کہا! تُو جھوٹا ہے اور ابوبکرؓ نے کہا! سچاہے اور اُنہوں نے اپنی جان و مال سے میرے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔
ابوبکرکے اندر مَیں نے احتجاج کی روح کبھی نہیں دیکھی
برموقع صلح حدیبیہ جب نبی کریمؐ اور قریش مکہ کے درمیان معاہدہ ہو رہا تھا اور ابوجندلؓ کو آپؐ نے شرائط معاہدہ کے تحت واپس کر دیا تو اُس وقت صحابہؓ بہت جوش میں تھے۔ اِس تناظر میں حضرت عمرؓ نے بخدمت آنحضرتؐ اظہار تذبذب کیا مگر باوجود آپؐ کے تسلی دلانے، جوش کے عالم میں تسلی نہ ہونے پر (چونکہ آپؐ کا خاص رعب تھا) آپؓ وہاں سے ہٹ کر حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئے اوراُن کے ساتھ بھی اِسی قسم کی پُر جوش باتیں کیں تو حضرت ابوبکرؓ نے بھی بطرز رسول اللهؐ جوابًا تقریبًا وہی الفاظ دُہرائے مگر ساتھ ہی نصیحت کے رنگ میں فرمایا!دیکھو عمر سنبھل کر رہو۔ رسول خدا کی رِکاب پرجو ہاتھ تم نے رکھا ہے اُسے ڈھیلا نہ ہونے دینا کیونکہ خدا کی قَسم! یہ شخص جس کے ہاتھ میں ہم نے اپنا ہاتھ دیا ہے بہرحال سچا ہے۔ اِس واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت المصلح الموعودؓ بیان فرماتے ہیں۔ ایک دفعہ رسول کریمؐ نے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا! مَیں نے تم کو بہت حکم دیئے مگر مَیں نے تم میں سے مخلص ترین لوگوں کے اندر بھی بعض دفعہ احتجاج کی روح دیکھی مگر ابوبکرکے اندر مَیں نے یہ روح کبھی نہیں دیکھی۔
آنحضرتؐ سے عشق و محبّت
حضرت ابوبکرؓ کے آنحضرتؐ سے عشق و محبّت کے بارہ میں حضرت المصلح الموعودؓ بیان کرتے ہیں۔ آپؓ کا تعلق بھی آنحضرتؐ سے عشقیہ تھا، جب آپؐ مدینہ میں داخل ہونے کے لئے مکہ سے نکلے تو اُس وقت بھی آپؓ کا تعلق عاشقانہ تھا اور جب آپؐ کی وفات کا وقت آیا تو اُس وقت بھی ۔ چنانچہ جب آنحضرتؐ پرسورۃ النّصر کی وحی نازل ہوئی ، جس میں مخفی طور پر آپؐ کی وفات کی خبر تھی تو آپؐ نے خطبہ پڑھا اور اُس میں اِس سورت کے نزول کا تذکرہ نیز فرمایا!الله تعالیٰ نے اپنے ایک بندہ کو اپنی رفاقت اور دنیوی ترقی میں سے ایک کے انتخاب کی اجازت دی اور مَیں نے خدا تعالیٰ کی رفاقت کو ترجیح دی۔ اِس سورت کو سُن کر سب صحابہؓ کے چہرے خوشی سےتمتما اُٹھے اور الله تعالیٰ کی تکبیر کرنے اور کہنے لگے الحمدلله! اب یہ دن آ رہا ہے۔ مگر جس وقت باقی سب لوگ خوش تھے حضرت ابوبکرؓ کی چیخیں نکل گئیں اور آپؓ بے تاب ہو کر رو پڑے اور کہا! یا رسول اللهؐ ، آپؐ پر ہمارے ماں، باپ اور بیوی، بچے سب قربان ہوں، آپؐ کے لئے ہم ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ گویا جس طرح کسی عزیز کے بیمار ہونے پر بکرا ذبح کیا جاتا ہے اُسی طرح آپؓ نے اپنی اور اپنےسب عزیزوں کی قربانی آپؐ کے لئے پیش کی۔
اِس پر بعض صحابہؓ نے کہا! دیکھو، اِس بُڈھے کو کیا ہو گیا ہے؟
یہ کیوں رو رہا ہے، اِس جگہ تو اسلام کی فتوحات کا وعدہ پیش کیا جا رہا ہے، حتّی کہ حضرت عمرؓ جیسے جلیل القدر صحابیؓ نے بھی اِس پر اظہار حیرت کیا۔ آپؐ نے لوگوں کے اِس استعجاب کو محسوس کیا اور حضرت ابوبکرؓ کی بے تابی کو دیکھا اور آپؓ کی تسلی کے لئے فرمایا! ابوبکر مجھے اتنے محبوب ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کے سواء کسی کو خلیل بنانا جائز ہوتا تو مَیں اِن کو خلیل بناتا مگر اب بھی یہ میرے دوست ہیں اورصحابی ہیں۔ مَیں حکم دیتا ہوں کہ آج سے لوگوں کے گھروں کی کھڑکیاں جو مسجد میں کھلتی ہیں بند کر دی جائیں سوائے ابوبکر کی کھڑکی کے۔اور اِس طرح آپؓ کے عشق کی آنحضرتؐ نے داد دِی کیونکہ یہ عشق کامل تھا جس نے آپؓ کو بتا دیا کہ اِس فتح و نصرت کی خبر کے پیچھے آپؐ کی وفات کی خبر ہے اور آپؓ نے اپنی اور اپنے عزیزوں کی جان کا فدیہ پیش کیا کہ ہم مَر جائیں مگر آپؓ زندہ رہیں، آپؐ کی وفات پر بھی آپؓ نے اعلیٰ نمونہ عشق کا دکھایا، غرض آپؓ نے غار ثور میں اپنی جان کے لئے گھبراہٹ کا اظہار نہیں کیا بلکہ آپؐ کے (عشق) لئے کیا اور اِسی لئے الله تعالیٰ نے اُن کو تسلی دی۔
کس قدر سچے عاشق تھے
حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے واقعہ تکرار نیز حضرت ابوبکرؓ کے اختیار کئے گئے عاجزانہ رویہ کے تناظر میں حضرت المصلح الموعودؓ ارشاد فرماتے ہیں۔ یہ ہوتا ہے سچے عشق کا نمونہ، بجائے یہ عُذر کرنے کے کہ یا رسول اللهؐ! میرا قصور نہ تھا، عمر کا قصور تھا۔ آپؓ نے جب دیکھا کہ رسول کریمؐ کے دل میں خفگی پیدا ہو رہی ہے تو سچے عاشق کی حیثیت سے یہ برداشت نہ کر سکے کہ میری وجہ سے آپؐ کو تکلیف ہو، آتے ہی آپؐ کے سامنے گُھٹنوں کے بَل بیٹھ گئے اور عرض کیا۔ یا رسول اللهؐ! عمر کا قصور نہیں تھا، میرا قصور تھا۔ دیکھو! حضرت ابوبکرؓ کس قدر سچے عاشق تھے، آپؓ یہ برداشت نہ کر سکے کہ آپؓ کے معشوق کے دل کو تکلیف ہو۔۔۔ اگر آپؓ رسول کریمؐ کے دل کے ملال کو دُور کرنے کی خاطر مظلوم ہونے کے باوجود ظالم ہونے کا اقرار کرتے ہیں تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک مؤمن بندہ اپنے خدا کی خوشنودی کے لئے وہ کام نہ کرے جو اُسے خدا تعالیٰ کی رضا کے قریب کر دے۔
یہ کس قدر اتباع رسولؐ ہے
حضرت المصلح الموعودؓ فرماتے ہیں ۔ رسول کریم ؐ کی متابعت صحابہؓ جس طرح کیا کرتے تھے، اِس کا ثبوت حضرت ابوبکرؓ کے ایک واقعہ سے مِل سکتا ہے۔ رسول کریمؐ کی وفات کے بعد جب بعض قبائل عرب نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تو آپؓ اُن کے خلاف جنگ کرنے کے لئے تیار ہو گئے، اُس وقت حالت ایسی نازک تھی کہ حضرت عمرؓ جیسے انسان نے مشورہ دیا کہ اِن لوگوں سے نرمی کرنی چاہئے مگر آپؓ نے جواب دیا! ابو قُحافہ کے بیٹے کی کیا طاقت ہے کہ وہ اِس حکم کو منسوخ کردے جو رسول کریمؐ نے دیا ہے، خدا کی قسم! اگر یہ لوگ رسول کریمؐ کے زمانہ میں اونٹ کا گُھٹنا باندھنے کی ایک رسّی بھی زکوٰۃ میں دیا کرتے تھے تو مَیں وہ رسّی بھی اِن سے لے کر رہوں گا اور اُس وقت تک دَم نہیں لوں گا جب تک کہ وہ زکوٰۃ ادا نہیں کرتے۔۔۔ اِسی طرح لشکر اُسامہؓ کے روکنے کی تجویز صحابہ ؓ نیز اصرار پر فرمایا! اگر دشمن اتنا طاقتور ہو جائے کہ وہ مدینہ پر فتح پائے اور مسلمان عورتوں کی نعشیں کتے گھسیٹتے پھریں تب بھی مَیں اِس لشکر کو جس کو آپؐ نے بجھوانے کے لئے تیار کیا تھا روک نہیں سکتا۔
اتنی تھی خشیّت الله تعالیٰ کی
ایک مرتبہ جب حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں خادم نے شہد ملا پانی پیش کیا تو آپؓ نے نہ پیا نیز برتن کو غور سے دیکھنے لگے، چند لمحات ہی گزرے تھے کہ آپؓ کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہنے لگا، ہچکیاں باندھ باندھ کر رونے لگے، روتے روتے آپؓ کی آواز اور بلند ہو گئی نیز شدید گریہ طاری ہو گیا۔لوگوں کی تسلی کے باوجود آپؓ نے رونا بند نہ کیا تو آس پاس کے تمام لوگ بھی آپؓ کو دیکھ کر رونا شروع اور رو، رو کر وہ خاموش بھی ہو گئے مگر آپؓ مسلسل روتے جا رہے تھے ، جب آنسو زرا تھمے تو لوگوں کے رونے کا سبب پوچھنے پر اپنے آپؓ پر قابو پاتے ہوئے فرمایا! مَیں نبی کریمؐ کے مرض الموت کے ایام میں آپؐ کے پاس موجود تھا، مَیں نے آپؐ کو دیکھا کہ اپنے ہاتھ سے کوئی چیز دُور کر رہے ہیں لیکن وہ چیز مجھے نظر نہ آ رہی تھی، آپؐ کمزورآواز میں فرما رہے تھے مجھ سے دُور ہو جاؤ، مجھ سے دُور ہو جاؤ۔ مَیں نے اِدھر اُدھر دیکھا مگر کچھ نظر نہ آیا، اِس کی بابت دریافت کرنے پر حضور اکرمؐ نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا! یہ در حقیقت دنیا تھی جو اپنی تمام آرائش و نعمت کے ساتھ میرے سامنے آئی تھی، مَیں نے اُسے کہا تھا! دُور ہو جاؤ، پس وہ یہ کہتی ہوئی دُور ہو گئی کہ اگر آپؐ نے مجھ سے چُھٹکارا پا لیا تو کیا ہؤا، جو لوگ آپؐ کے بعد آئیں گے وہ مجھ سے کبھی نہیں بچ سکیں گے۔ آپؓ نے پریشانی میں اپنا سر ہلایا اور غمزدہ آواز میں فرمایا! لوگو ، مجھے بھی اِس شہد ملے پانی کی وجہ سے ڈر لاحق ہؤا کہ کہیں اِس دنیا نے مجھے آگھیرا نہ ہو، اِس لئے مَیں سسکیاں بھر کر رویا تھا۔
خطبۂ ثانیہ سے قبل:حضور انور ایدہ الله نے نواسی سال کی عمر میں وفات
پانے والے مخلص واقف زندگی وکیل الزراعت تحریک جدید محترم سمیع الله سیّال صاحب ولد رحمت الله سیّال صاحب ( 1949ء میں اِنہوں نے وقف کیا، دیگر واقفین زندگی کے ساتھ اِن کا ٹیسٹ اور اِنٹرویو ہؤا نیز حضرت المصلح الموعودؓ نے خود پرچہ ترتیب دیا، 1953ء میں دفاتر میں آپ کا ابتدائی تقرر ہؤاپھر مختلف دفاتر میں کام کرتے رہے، 1960ء تا 1963ء سیرالیون میں خدمت کی توفیق پائی، 1983ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرّابعؒ نے آپ کو وکیل الزراعت و صنعت و تجارت مقرر فرمایا، 1988ء سے 1999ء تک بطور وکیل الدیوان ، 1999ء سے 2012ء تک وکیل الزراعت و صنعت و تجارت کے طور پر خدمت کی توفیق ملی نیز 2012ء تا وفات آپ وکیل الزراعت رہے، آپ کی خدمت کا عرصہ69 سال پر محیط رہا) اور بعمرپچاسی سال وفات پانے والی محترمہ صدیقہ بیگم صاحبہ اہلیہ علی احمد صاحب معلم وقف جدید (اِن کے بیٹے عبدالہادی طارق صاحب مُربیٔ سلسلہ اور اُستاد جامعہ ٔاحمدیہ گھانا ہیں) کا تفصیلی تذکرۂ خیر نیز بعد از نماز جمعۃ المبارک جنازہ غائب پڑھانے کابھی ارشاد فرمایا۔
(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ الفضل آن لائن جرمنی)