الله تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بے شمار وعدے نیز الہامًا فرمایا: خدا ایسا نہیں جو تجھے چھوڑ دے، خدا تجھے غیر معمولی عزت دے گا، لوگ تجھے نہیں بچائیں گے پر مَیں تجھے بچاؤں گا۔۔۔ جماعت کی 133 سالہ تاریخ اِس بات پر گواہ ہے کہ کس طرح الله تعالیٰ اپنے وعدے پورے فرماتا چلا جا رہا ہے
حضور انور ایدہ الله نے تشہد، تعوذ اور سورۃالفاتحہ کی تلاوت کے بعد ارشاد فرمایا! آج آپ یہاں افتتاح مسجد زائِن کے لئے جمع ہیں، الله تعالیٰ نے جماعت احمدیہ امریکہ کو اِس مسجد کی تعمیر کرنے کی توفیق دی اور اُس شہر میں جو جماعت کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔
صرف خوشی نہیں بلکہ انتہائی شکر گزاری کا دن بھی ہے
اِس شہر کی تاریخی اہمیت، ایک نام نہاد دعویدار اور اُس کا حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ غلط زبان استعمال کرنا، پھر اُس کا خاتمہ ہونا اور اِس شہر میں جماعت کا قیام ہونا الله تعالیٰ کا شکر اَدا کرنے والا ہر احمدی کو بناتا ہے اور بنانا چاہئے۔ اِس کے لئے آنحضرت صل الله علیہ و سلم کے ارشاد کے مطابق ہم اِس شہر کے لوگوں کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے باوجود اِس کے کہ شروع میں کونسل نے تعمیر مسجد کی مخالفت کرتے ہوئے انکار کر دیا تھا، ہمارے حق میں کھڑے ہوئے اور کونسل کو مجبور کیا کہ وہ تعمیر مسجد کی اجازت دے۔ اُس عظیم خدا کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ جس نے ہمیں اِس مسجد کی تعمیر کی توفیق دی، پس اِس لحاظ سے ہم احمدیوں کے لئے ایک صرف خوشی کا دن نہیں بلکہ انتہائی شکر گزاری کا دن بھی ہے جس نے ہمیں تعمیر مسجد کے ساتھ امام زمانہ اور آنحضرتؐ کے عاشق صادقؑ کی سچائی کا بھی زندہ نشان دکھایا۔
یہ وعدوں کے پورے ہونے کا نظارہ نہیں تو اور کیا ہے؟
آج سے 120 سال پہلے الله تعالیٰ سے خبر پا کرجس جھوٹے دعویدار اور دشمن اسلام کی ہلاکت کی پیشگوئی آپؑ نے فرمائی تھی۔ آج اُس کے شہر میں، جس کے بارہ میں اُس کا اعلان تھا کہ کوئی مسلمان جب تک وہ عیسائی نہیں ہو جاتا یہاں داخل نہیں ہو سکتا، الله تعالیٰ نے جماعت کو مسجد بنانے کی توفیق دی۔ پس یہ ہیں الله تعالیٰ کے کام، ایک ارب پتی اور دنیاوی جاہ وحشمت رکھنے والے کو الله تعالیٰ نے جھوٹا اور ختم کر دیا اور پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہنے والےاپنے فرستادہ کادعویٰ جو اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے ساتھ کیا گیا تھا دنیا کے 220 ممالک میں گونجنے کے سامان بھی پیدا کر دیئے۔
پس کیا یہاں ہمارا کام ختم ہو جاتا ہے؟
کیا یہی کافی ہے کہ امریکہ کے ایک چھوٹے سے شہر میں ہم نے مسجد بنا لی اور جماعت کو ترقی مِل گئی، نہیں! حضرت مسیح موعودؑ کے لئے تو الله تعالیٰ نے پوری دنیا کومیدان عمل بنایا، ہم نے تو ہر چھوٹے شہر، بڑے شہر اور ملکوں کو آنحضرتؐ کی غلامی میں لانا ہے۔ ہم اگر اپنے وسائل دیکھیں تو یہ بڑا وسیع کام نظر آتا ہے لیکن الله تعالیٰ نے اِس سب کے باوجود ہمارے سپرد یہ کام کیا ہؤا ہے اور یہ بھی الله تعالیٰ کا آپؑ سے وعدہ ہے لیکن آپؑ نے فرمایا! سب کام جو کئے جا رہے ہیں یہ تو معمولی کوشش ہے ہماری، اِس کے ساتھ اصل میں تو دعاؤں کی ضرورت ہے، دعاؤں سے ہی کام ہونے ہیں، پس اِس اہم بات کو ہمیں ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے۔
مساجد کی تعمیر بھی اِس لئے ہوتی ہے
اِس میں عبادت کے لئے لوگ جمع ہوں، پانچ وقت الله تعالیٰ کے حضورحاضر ہوں، جمعوں میں باقاعدگی اختیار کریں، دنیا کے لہو و لعب اور کاموں میں اپنی عبادتوں کو نہ بھول جائیں۔ اگر ہم اپنی عبادتوں کو بھول گئے تو یہ مسجد بنانا صرف ایک ظاہری ڈھانچہ کھڑا کرنا ہے، دنیا کو ہم یہ بتا رہے ہوں گے کہ یہاں ایک مسلمانوں کی مسجد بن گئی ہے لیکن ہمارے عمل الله تعالیٰ کے نزدیک اِس قابل نہیں ہوں گےکہ اِس مسجد کی برکات سے فیض پانے والے ہوں یا ہم حضرت مسیح موعودؑ کے مددگاروں میں سے ہوں۔ آپؑ نے تو فرمایا ہے، مسلسل دعاؤں سے میرے مددگار بنو تاکہ ہم الله تعالیٰ کے فضلوں کو جلد سے جلد پُورا ہوتا ہوئے دیکھیں۔
پس آج ہم میں سے ہر ایک کا کام ہے
مقبول دعاؤں کے لئے عبادتوں کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں، اپنے بچوں کو بھی عبادت کی عادت ڈالیں، الله تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق اپنی نمازوں کو سنوار کر ادا کریں، خالص ہو کر الله تعالیٰ کے آگے جھکیں اور اِس سے مزید فتوحات کی توفیق مانگیں۔ کتنے خوش قسمت ہوں گے ہم میں سے وہ جن کو یہ سب کچھ حاصل ہو جائے اور پھر وہ الله تعالیٰ کے فضلوں کی بارش کو برستا دیکھیں۔ اگر ہم اپنی عبادتوں کے معیار بلند، دین کو دنیا پر مقدم کریں گے تو حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ الله تعالیٰ کے جو وعدے ہیں اُنہیں اپنی زندگیوں میں پُورا ہوتے دیکھیں گے۔
آج بھی فانی فی الله کے غلام صادقؑ کی دعائیں ہی ہیں
آنحضرتؐ سے الله تعالیٰ کے فتح اسلام کے وعدہ کے باوجود برموقع جنگ بدر آپؐ کے گریہ و زاری، عجز، خوف، خشیّت اور دعا ایک عظیم مقام پرپہنچے ہونے نیز ببابت اِس کیفیت استفسار حضرت ابوبکرؓ کے تناظر میں حضور انور ایدہ الله نے بیان کیا، آنحضرتؐ نے فرمایا! الله تعالیٰ بے نیاز ہے، فتوحات میں بھی مخفی شرائط ہوتی ہیں، اِس لئے میرا کام نہایت تضرع سے الله تعالیٰ سے اُس کی مدد مانگنا ہے۔۔۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔ وہ فانی فی الله کی دعائیں ہی تھیں جو یہ انقلاب لائیں، پس آج بھی فانی فی الله کے غلام صادقؑ کی دعائیں ہی ہیں جو اپنے وقت پر پُورا ہو کر دنیا کو آپؐ کے قدموں کے نیچے لائیں گی لیکن آپؑ نے فرمایا! تم جو میری طرف منسوب ہوتے ہو اپنی دعاؤں اورعمل سے میری مدد کرو۔
آج ہم اِس مسجد میں بیٹھے اور اِس کا افتتاح کر رہے ہیں
اِس کا نام بھی فتح عظیم مسجد رکھا ہے اور یہ نام حضرت مسیح موعودؑ کےالہام اور پیشگوئی کے حوالہ سے رکھا گیا ہے۔ آپؑ نے الله تعالیٰ سےاطلاع پا کر ڈوئی کی ہلاکت کی پیشگوئی کی اور فرمایا تھا! یہ نشان جس میں فتح عظیم ہو گی عنقریب ظاہر ہو گا۔ اور دنیا نے دیکھا کہ پندرہ، بیس دن کے اندر ہی الله تعالیٰ نے اُسے ذلت سے ہلاک کر دیا، اُس کی ہلاکت کے نشان کو الله تعالیٰ سے اطلاع پا کر آپؑ نے فتح عظیم قرار دیا اور آج اِس کا اگلا قدم ہے جو اِس شہر میں ہم مسجد کا افتتاح کر رہے ہیں۔ آپؑ کے الہام کے ایک حصہ کو ہم نے تقریبًا 115 سال پہلے پورے ہوتے دیکھا اور اُس کا اگلا قدم ہم آج پُورا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔
ہیڈنگ اخبار ’’عظیم ہے مرزا غلام احمد جو المسیح ہے‘‘
بعد ازاں حضور انور ایدہ الله نے اُس وقت کے دنیاوی اخبارات کے حضرت مسیح موعودؑ کے چیلنج کو اپنے اخبارات میں جگہ اور پھر اُس کی ہلاکت کی خبر دینے کی بابت ارشاد فرمایا! پس یہ خدا تعالیٰ کا نشان تھا جسے دنیا نے مانا۔ مزید برآں اِس تناظر میں سنڈےبوسٹن ہیرلڈ کی اشاعت مؤرخہ 23؍ جون 1907ء میں آپؑ کے تعارف، دعویٰ و چیلنج نیز حسرت ناک ہلاکت ڈوئی کے بارہ میں لکھی گئی تفصیلات کا اختصار سے تذکرہ نیز ارشاد فرمایا! حضرت مسیح موعودؑ کا مشن بہت وسیع ہے، یہ تو ایک محاذ کی ایک جگہ کی فتح کا ذکر ہے، ہماری حقیقی خوشی تو اُس وقت ہو گی جب ہم دنیا کو آنحضرتؐ کے قدموں کے نیچے لائیں گے۔ اِس کے لئے اب ہمیں اِس مسجد کے بننے کے ساتھ تبلیغ کے نئے راستے تلاش کرنے ہوں گے، مسیح محمدیؐ کے دلائل کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہو گا، پہلے سے بڑھ کر اپنی عملی و روحانی حالت کو بہتر بنانا ہو گا۔
اِس فتح کو مستقل تبلیغ اور دعاؤں سے دائمی کرنے کی ضرورت ہے
اصل فتح عظیم تو فتح مکہ تھی، کیا فتح مکہ کے بعد آنحضرتؐ اور خلفاء ِ راشدین یا بعد کے مسلمانوں نے تبلیغ کے کام کو روک دیا تھا، کیا اسلام کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کی بھرپور کوشش نہیں کی تھی، جنگوں سے علاقے فتح نہیں کئے تھے۔ ہاں! جنگیں بھی ہوئیں لیکن اِس لئے نہیں کہ دین پھیلے بلکہ دل جیتے تھے جس سے قربانی کرنے والے لوگ گروہ دَر گروہ اسلام میں شامل ہوتے چلے گئے، پس آپؑ کے ذریعہ حاصل ہونے والی فتح کو مستقل تبلیغ اور دعاؤں سے دائمی کرنے کی ضرورت ہے۔
باوجود عدم وسائل کئی ملکوں میں کس شان سے آپؑ کا پیغام پہنچا
آنحضرتؐ سے الله تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ تا قیامت اِس دین کو قائم رکھنے اور تمکنت عطاء فرمانے کے لئے آخری زمانہ میں مسیح موعود اور مہدی معہود کو بھیجے گا اور پھر آپؑ کو بھیجا، آپؑ نے دنیا کو اپنی بعثت کی خبر دی اور باوجود وَسائل نہ ہونے کےیورپ، امریکہ اور دنیا کے کئی ملکوں میں آپؑ کا پیغام پہنچا نیز ڈوئی کے حوالہ سے ہم دیکھ ہی رہے ہیں کہ کس شان سے پہنچا۔ آپؑ کے ذریعہ جو الله تعالیٰ نے اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا بیج بویا تھا وہ ایک شان سے دنیا میں پھیلتا، پھولتا جا رہا ہے۔
پس آج اِس مسجد کا افتتاح عظیم تب بنے گا
جب ہم اِس حقیقت کو پہچان لیں کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے، ہمارا مقصد مسجدوں کو الله تعالیٰ کے حکموں پر چلتے اور اُس کی رضا کو حاصل کرتے ہوئے آباد کرنا ہے۔ لیکن کیا اِس عظیم فتح کی خوشی میں ہم صرف ایک یادگار مسجد بنا دیں اور خوش ہو جائیں، ہم نے حضرت مسیح موعودؑ کی دعاؤں کے پھل کھائے اور کھا رہے ہیں لیکن آپؑ نے اپنے ماننے والوں کو بھی اِنہی قدموں پر چلنے کی تلقین فرمائی ہے جو الله تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے راستے ہیں۔۔ ۔پس آج یہ ہمارا کام ہے، جو دعویٰ کرتے ہیں کہ مسیح موعودؑ کی جماعت میں شامل ہوئے ہیں، مسیح محمدیؐ کے کام کو ملک کے کونے کونے میں پھیلا دیں، خدا تعالیٰ کی واحدانیت اِن پر ثابت کریں اور یہ کام اُس وقت ہو گا جب ہم اپنا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرتے ہوئے تقویٰ میں بڑھیں گے۔
پس اے مسیح محمدیؐ کے غلامو!
ہر فتح کا نشان ہمارے اندر ایک انقلاب پیدا کرنے والا ہونا چاہئے، یہ عہدکریں کہ آج کا دن ہمارے اندر، ہمارے بچوں اور ہماری نسلوں کےلئےبھی ایک روحانی انقلاب لانے کا دن ہو گا اور ہونا چاہئے ورنہ ڈوئی کی ہلاکت یا اِس شہر کے لوگوں کے اُس کے نام سے عدم واقفیت سے ہمیں کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے کہ ہم نے اِن کو متعارف کروا دیا یہ جانتے نہیں تھے۔ فائدہ تو تبھی ہے جب اِس فتح عظیم کی پیشگوئی کےپُورا ہونے سے ہمارے اندر بھی ایک انقلاب عظیم پیدا ہو اَور ہمارے اہل وطن اور دنیا بھی حضرت محمد رسول اللهؐ کی غلامی کا جُوا اَپنی گردن پر ڈال لیں، خدا تعالیٰ کی واحدانیت کی قائل اور اِس کے لئے ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ الله تعالیٰ ہمیں اور ہماری نسلوں کو بھی یہ مقام حاصل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ الفضل آن لائن۔ جرمنی)