امیر المؤمنین سیدنا حضرت خلیفتہ المسیحِ الخامس ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مؤرخہ 14؍جنوری 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد؍ٹلفورڈ یوکے
نبیٔ اکرمؐ نے سُراقہ بن مالک کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا! سُراقہ تیرا کیا حال ہو گا جب کسریٰ کے کنگن تیرے ہاتھ میں ہوں گے۔ سُراقہ حیرت زدہ ہو کر پلٹا اور کہا کہ کسریٰ بن ہُرمُز! آپؐ نے فرمایا۔ ہاں! وہی کسریٰ بن ہُرمُز۔
حدیث میں ہے کہ پیر کے دن رسولِ کریمؐ پیدا ہوئے، پیر کے دن مکّہ سے نکلے اور پیر کے دن مدینہ پہنچے اور پیر کے دن آپؐ کی وفات ہوئی۔۔۔ترمذی اور ابنِ ماجہ نے انسؓ بن مالک سے روایت کی ہے کہ جب آنحضرتؐ تشریف لائے تو ہم نے یوں محسوس کیا کہ ہمارے لیئے مدینہ روشن ہو گیا اور جب آپؐ فوت ہوئے تو اُس دن سے زیادہ تاریک ہمیں مدینہ کا شہر کبھی نظر نہیں آیا۔
قُبا کے انصار نے آنحضرتؐ کا نہایت پُر تپاک استقبال کیا اور آپؐ کلثومؓ بن الہِدم کے مکان پر فروکش ہوئے۔۔۔مسلمان عورتوں اور لڑکیوں نے خوشی کے جوش میں اپنے گھروں کی چھتوں پر چڑھ چڑھ کر گانا شروع کیا، آج ہم پر کوہِ وِداع کی گھاٹیوں سے چودھویں کے چاند نے طلوع کیا ہے ۔ اِس لیئے اب ہم پر ہمیشہ کے لیئے خدا کا شکر واجب ہو گیا ہے۔ مسلمانوں کے بچے مدینہ کی گلی کوچوں میں گاتے پھرتے تھے کہ ’’محمدؐ آ گئے، خدا کے رسول آ گئے۔‘‘
حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشہّد، تعوّذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد گزشتہ سے قبل خطبہ میں حضرت ابوبکر صدّیقؓ کے ذکرکے تناظر میں سُراقہ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کے تعاقب کے حوالہ سے مزید بیان فرمایا۔
سُراقہ تیرا کیا حال ہو گا جب کسریٰ کے کنگن تیرے ہاتھ میں ہوں گے
وہ بھی انعام کے لالچ میں آنحضرتؐ کو پکڑنے کی نیّت سے نکلا تھا لیکن جب الله تعالیٰ کی تقدیر نے اُس کے آگے روکیں کھڑی کر دیں تو اُس نے اُس وقت آنحضرتؐ سے درخواست کی کہ جب آپؐ کی حکومت ہو تو مجھے اَمان دی جائے اور ایک تحریر لکھوائی۔ اِس ضمن میں بعض روایات ہیں، ایک روایت کے مطابق اُس کے واپس لَوٹتے ہوئے نبیٔ اکرمؐ نے اُسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا!
سُراقہ تیرا کیا حال ہو گا جب کسریٰ کے کنگن تیرے ہاتھ میں ہوں گے۔
سُراقہ حیرت زدہ ہو کر پلٹا اور کہا کہ کسریٰ بن ہُر مُز! آپؐ نے فرمایا۔ ہاں! وہی کسریٰ بن ہُر مُز۔ چنانچہ جب حضرت عمرؓ کے زمانۂ خلافت میں کسریٰ کے کنگن ، اُس کا تاج اور اُس کا کمربند لایا گیا تو حضرت عمرؓ نے سُراقہ کو بلایا اور فرمایا! اپنے ہاتھ بلند کرو اَور اُنہیں کنگن پہنائے اور فرمایا کہ کہو! تمام تعریفیں الله تعالیٰ کے لیئے ہیں جس نے کسریٰ بن ہُرمُز سے یہ دونوں چھین کر عطاء کیئے۔ یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ مذکورہ بالا ارشاد رسول اللهؐ نے سفرِ ہجرت کے وقت نہیں بلکہ جب آپؐ حنین اور طائف سے واپس تشریف لا رہے تھے تو سُراقہ بن مالک نے جعرانہ کے مقام پر اسلام قبول کیا تو اُس وقت آپؐ نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی۔
کتنی بڑی پیشگوئی ، کتنا مصفّٰی غیب تھا
حضرت المصلح الموعودؓ سُراقہ کے واقعۂ تعاقب کی تفصیل بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ جب سُراقہ لَوٹنے لگا تو معًا الله تعالیٰ نے سُراقہ کے آئندہ حالات آپؐ پر غیب سے ظاہر فرما دیئے اور اُن کے مطابق آپؐ نے اُسے فرمایا!سُراقہ اُس وقت تیرا کیا حال ہو گاجب تیرے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن ہوں گے۔۔۔آپؐ کی یہ پیشگوئی سولہ ، سترہ سال بعد جا کر لفظ بلفظ پوری ہوئی۔۔۔کتنی بڑی پیشگوئی تھی، کتنا مصفّٰی غیب تھا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے سامنے کسریٰ کے کنگن دیکھے تو خدا کی قدرت اُن کی آنکھوں کے سامنے پھر گئی۔ اُنہوں نے کہا کہ سُراقہ کو بلاؤ، سُراقہ بلائے گئے تو حضرت عمرؓ نے اُنہیں حکم دیا کہ کسریٰ کے کنگن اپنے ہاتھوں میں پہنیں۔ سُراقہ نے کہا کہ اَے خدا کے رسول کے خلیفہ! سونا پہننا تو مسلمانوں کے لیئے منع ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا! ہاں منع ہے مگر اِن موقعوں کے لیئے نہیں۔ الله تعالیٰ نے محمد رسول اللهؐ کو تمہارے ہاتھ میں سونے کے کنگن دکھائے تھے یا تو تم یہ کنگن پہنو گے یا مَیں تمہیں سزاء دُوں گا۔ سُراقہ کا اعتراض تو محض شریعت کے مسئلہ کی وجہ سے تھا ورنہ وہ خود بھی رسول اللهؐ کی پیشگوئی کو پُورا ہوتے دیکھنے کا خواہشمند تھا۔ سُراقہ نے وہ کنگن اپنے ہاتھ میں پہن لیئے اور مسلمانوں نے اِس عظیم الشّان پیشگوئی کو پُورا ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
تعاقب کرنے والے واپس لَوٹ گئے
واپسی پر ایک قافلہ نے جو قریش نے ہی آپؐ کی تلاش میں بھیجا تھا سُراقہ سے آپؐ کے متعلق قافلہ والوں نے پوچھا لیکن سُراقہ نے صرف یہ کہ آپؐ کے بارہ میں کچھ نہیں بتایا بلکہ اِس طرح کی گفتگو کی کہ تعاقب کرنے والے واپس لَوٹ گئے۔
ایک معجزہ کا ظہور
ہجرت کے سفر کے دوران ایک خیمہ کے پاس سے گزرتے ہوئے زادِ راہ کی طلب میں نبیٔ کریمؐ کا یہ قافلہ رُکا، یہ اُمّ مَعْبَد (عاتکہ بنتِ خالد)کا خیمہ تھا ۔آپ ایک بہادر اور مضبوط خاتون تھیں وہ اپنے خیمہ کے صحن میں بیٹھی رہتیں اور وہاں سے گزرنے والوں کو کھلاتی پلاتیں۔ آپؐ اور آپؐ کے ساتھیوں نے اُس سے گوشت اور کھجوروں کے متعلق پوچھا تاکہ اُس سے خرید سکیں۔ لیکن اُس کے پاس اُن میں سے کوئی چیز نہ تھی۔ اُس وقت اُن کی قوم محتاج اور قحط زدہ تھی۔ اُنہوں نے کہا! اگر ہمارے پاس کچھ ہوتا تو ہم تم لوگوں سے اُسے دُور نہ رکھتے۔ رسول اللهؐ کو خیمہ کے کونے میں بکری نظر آئی تو آپؐ نے پوچھا اَے اُمّ مَعْبَد یہ بکری کیسی ہے۔ اُس نے عرض کیا یہ ایک ایسی بکری ہے جسے کمزور ی نے ریوڑ سے پیچھے رکھا ہؤا ہے۔ آپؐ نے فرمایا! کیا اِس میں دودھ ہے؟ اُس نے کہا یہ اِس سے کہیں زیادہ کمزور ہے۔ آپؐ نے پوچھا کیا تم مجھے اجازت دیتی ہو کہ مَیں اِس کا دودھ دوہ لوں؟ اجازت ملنے پر رسول اللهؐ نے وہ بکری منگوائی اور اُس کے تھن پر ہاتھ پھیرا اَور الله عزّوجل کا نام لیا اور اُمّ مَعْبَد کے لیئے اُس کی بکری میں برکت کی دعا کی۔ بکری آپؐ کے سامنے آرام سے کھڑی ہوگئی اور اُس نے خوب دودھ اُتارا اَور جُگالی شروع کر دی پھر آپؐ نے اِن سے ایک برتن منگوایا جو ایک جماعت کو سیر کر سکتا تھا۔ اُس میں اتنا دودھ دوہا کہ جھاگ اُس کے اوپر تک آ گئی۔ اِسی طرح اُمّ مَعْبَد اور پھر ساتھیوں کو پلایا یہاں تک کہ وہ سب سیر ہو گئے ، اُن سب کے آخر میں آپؐ نے خود نوش کیا اور فرمایا! قوم کو پلانے والا آخر میں پیتا ہے۔ پھر کچھ وقفہ کے بعد آپؐ نے اِس برتن میں دوبارہ دودھ دوہا یہاں تک کہ وہ بھر گیا اور اُسے اُمّ مَعْبَد کے پاس چھوڑ دیا پھر آپؐ نے وہ بکری خریدی اور سفر کے لیئے نکل پڑے۔
سفید کپڑوں کا نذرانہ
رسولِ کریمؐ راستہ ہی میں تھے کہ اُنہیں حضرت زبیر ؓ بن العوام ملے جو مسلمانوں کے ایک قافلہ کے ساتھ شام سے تجارت کر کے واپس آ رہے تھے۔ حضرت زبیرؓ نے رسول اللهؐ اور حضرت ابوبکر ؓ کو سفید کپڑے پہنائے۔
یہ میرا ہادی ہے
بخاری کی ایک روایت ہے،کبھی ایسا بھی ہوتا کہ راہ گزرتے ہوئے کئی دوسرے قافلہ والے جو کہ حضرت ابوبکرؓ کو اُن کے اکثر تجارتی سفروں کی وجہ سے اِنہی جگہوں پر دیکھ چکے تھے پوچھتے کہ آپؓ کے ساتھ یہ کون ہے؟ تو آپؓ کہہ دیتے کہ مجھے راستہ دکھانے والے ہیں۔
ھٰذَا الرَّجُلُ یَھْدِیْنِیَ السَّبِیْلَ
یہ شخص مجھے راستہ کی طرف ہدایت دینے والے ہیں۔
لوگ سمجھتے کہ گائیڈ ہیں اور حضرت ابوبکرؓ کی مراد ’’راہِ ہدایت‘‘ سے ہوتی۔
پیر کا دن
آٹھ دن سفر کرتے ہوئے خدائی نصرتوں کے ساتھ آخر کار (ماہِ ربیع الاوّل) پیر کے دن آپؐ مدینہ کے راستہ قُبا پہنچ گئے۔ حدیث میں ہے کہ پیر کے دن آپؐ پیدا ہوئے، پیر کے دن مکّہ سے نکلے اور پیر کے دن مدینہ پہنچے اور پیر کے دن آپؐ کی وفات ہوئی۔
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالِ سادگی پر دلالت
حضرت المصلح الموعودؓ رسولِ کریمؐ کی قُبا میں آمد کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سُراقہ کو رخصت کرنے کے بعد چند منزلیں طے کر کے رسولِ کریمؐ مدینہ پہنچ گئے۔ مدینہ کے لوگ بے صبری سے آپؐ کا انتظار کر رہے تھے اور اِس سے زیادہ اُن کی خوش قسمتی اور کیا ہو سکتی تھی کہ وہ سورج جو مکّہ کے لیئے نکلا تھا مدینہ کے لوگوں پر جا طلوع ہؤا۔ ۔۔۔قُبا کے باشندے اِس خیال سے کہ خدا کا نبی اُن میں ٹھہرنے آیا ہے خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔ اِس موقع پر ایک ایسی بات ہوئی جو رسول اللهؐ کی سادگی کے کمال پر دلالت کرتی تھی۔ مدینہ کے اکثر لوگ آپؐ کی شکل سے واقف نہیں تھے، جب قُباء سے باہر ایک درخت کے نیچے آپؐ بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ بھاگتے ہوئے مدینہ سے آپؐ کی طرف آ رہے تھے تو چونکہ رسول اللهؐ بہت زیادہ سادگی سے بیٹھے ہوئے تھے اُن میں سے نا واقف لوگ حضرت ابوبکرؓ کو دیکھ کر جو عمر میں گو چھوٹے تھے مگر اُن کی داڑھی میں کچھ سفید بال آئے ہوئے تھے اور اِسی طرح اِن کا لباس رسول اللهؐ سے کچھ بہتر تھا یہی سمجھتے کہ ابوبکرؓ ، رسول اللهؐ ہیں اور بڑے ادب سے آپؐ کی طرف منہ کر کے بیٹھ جاتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے جب یہ بات دیکھی تو سمجھ لیا کہ لوگوں کو غلطی لگ رہی ہے وہ جَھٹ چادر پھیلا کر سورج کے سامنے کھڑے ہوگئے اور کہا!یا رسول اللهؐ آپؐ پر دھوپ پڑ رہی ہے، مَیں آپؐ پر سایہ کرتا ہوں۔ اور اِس لطیف طریق سے اُنہوں نے لوگوں پر اُن کی غلطی کو ظاہر کر دیا۔
آنحضرتؐ کی مدینہ تشریف آوری پر خوشی کی کیفیت
حضرت مرزا بشیر احمد صاحِبؓ اِس کی بابت تحریر فرماتے ہیں۔ بخاری میں بَراء ؓبن عازب کی روایت ہے کہ جو خوشی انصار کو آنحضرتؐ کے مدینہ تشریف لانے کے وقت پہنچی تھی ویسی خوشی کی حالت میں مَیں نے اُنہیں کبھی کسی اور موقع پر نہیں دیکھا۔ ترمذی اور ابنِ ماجہ نے انسؓ بن مالک سے روایت کی ہے کہ جب آنحضرتؐ تشریف لائے تو آپ نے یوں محسوس کیا کہ ہمارے لیئے مدینہ روشن ہو گیا اور جب آپؐ فوت ہوئے تو اُس دن سے زیادہ تاریک ہمیں مدینہ کا شہر کبھی نظر نہیں آیا۔۔۔قُبا کے انصار نے آپؐ کا نہایت پُر تپاک استقبال کیا اور آپؐ کلثومؓ بن الہِدم (رئیس خاندان عَمرو بن عوف) کے مکان پر فروکش ہو گئے۔
وہ مسجد جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی
رسولِ کریمؐ نے دورانِ قیامِ قُبا ایک مسجد کی بنیاد بھی رکھی جسے مسجد قُبا کہا جاتا ہے، صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللهؐ بنو عَمرو بن عوف کے محلّہ میں دسّ سے زائد راتیں ٹھہرے اور اِس مسجد کی بنیاد رکھی، جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی اور اُس میں رسول اللهؐ نے نماز پڑھی۔ مگر بعض روایات میں مسجد نبویؐ کو وہ مسجد قرا دیا گیا ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی تھی۔ سیرتِ حَلَبیّہ میں ذکر ہے کہ اِن دونوں اقوال میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ اِن دونوں مساجد میں سے ہر ایک کی بنیاد تقویٰ پر ہی رکھی گئی ۔ اِس بات کی تائید حضرت ابنِ عبّاس ؓ سے منقول ہے ۔۔۔اُن کی رائے تھی کہ مدینہ کی تمام مساجد جس میں قُبا کی مسجد بھی شامل ہے اِس کی بنیاد تقویٰ پر ہی رکھی گئی ہے لیکن جس کے متعلق آیت نازل ہوئی تھی وہ مسجد قُبا ہی ہے۔
مسجد الجمعہ
دسّ دن یا چودہ دن قیام کے بعد جمعہ کے دن نبیٔ کریمؐ قُبا سے مدینہ کے لیئے روانہ ہوئے، راستہ میں جب بنو سالم بن عوف کی آبادی میں پہنچے تو جمعہ کا وقت ہو گیا آپؐ نے مسلمانوں کے ہمراہ وادیٔ رانوناءکی مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کی اور اُن کی تعداد ایک سَو تھی۔ جب آپؐ نے اِس مسجد میں جمعہ کی نماز اَدا کی تو اُس وقت سے اِس مسجد کو ’’مسجد الجمعہ‘‘ کہا جانے لگا۔
پہلا جمعہ جو آنحضرتؐ نے خود اَدا کیا
یہ پہلا جمعہ تھا جو آپؐ نے مدینہ میں پڑھا۔حضرت مرزا بشیر احمد صاحِب ؓ اِس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں۔مؤرّخین لکھتے ہیں کہ گو اِس سے پہلے جمعہ کا آغاز ہو چکا تھا مگر یہ پہلا جمعہ تھا جو آپؐ نے خود اَدا کیا اور اِس کے بعد جمعہ کا طریق باقاعدہ جاری ہو گیا۔
یا رسول اللهؐ! مدینہ میں آپؐ کا داخلہ ایک جھنڈا کے ساتھ ہونا چاہیئے
انعام کے لالچ میں بہت سے لوگوں نے آپؐ کا پیچھا کرنے کی کوشش کی، اِسی ضِمن میں بُریدہ بن حُصیب کے بنو سَہم کے سوار ستّر لوگوں کے ہمراہ آپؐ سے ملنے کے واقعہ کی تفصیلات نیز اِن کے قبولِ اسلام کے تناظر میں تذکرہ ہؤا کہ بُریدہؓ نے کہا! تمام تعریفیں الله تعالیٰ کے لیئے ہیں بنو سَہم نے بغیر کسی جبر کے اسلام قبول کیا۔ جب صبح ہوئی تو بُریدہ ؓنے کہا، یا رسول اللهؐ! مدینہ میں آپؐ کا داخلہ ایک جھنڈا کے ساتھ ہونا چاہیئے۔ پھر اُس نے اپنا عمامہ سر سے اُتارا اَور اُسے اپنے نیزہ پر باندھ لیا اور آپؐ کے آگے آگے چلنے لگا یہاں تک کہ مسلمان مدینہ میں داخل ہو گئے۔
یارسول اللهؐ! یہ ہمارا گھر، یہ ہمارا مال اور جان حاضر ہے
نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے بعد رسولِ کریمؐ اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اُس وقت آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ کو پیچھے بٹھایا ہؤا تھا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحِب ؓ جمعہ سے فراغت اور قافلہ کی آہستہ آہستہ آگے روانگی کے متعلق تحریر فرماتے ہیں۔ راستہ میں آپؐ مسلمانوں کے گھروں کے پاس سے گزرتے تھے تو وہ جوشِ محبّت میں بڑھ بڑھ کر عرض کرتے تھے ۔یارسول اللهؐ! یہ ہمارا گھر ، یہ ہمارا مال اور جان حاضر ہے اور ہمارے پاس حفاظت کا سامان بھی ہے آپؐ ہمارے پاس تشریف فرما ہوں، آپؐ اُن کے لیئے دعائے خیر فرماتے اور آہستہ آہستہ شہر کی طرف بڑھتے جاتے تھے۔ مسلمان عورتوں اور لڑکیوں نے خوشی کے جوش میں اپنے گھروں کی چھتوں پر چڑھ چڑھ کر گانا شروع کیا۔
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعِ
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا مَا دَعیٰ لِلّٰهِ دَاعِ
یعنی آج ہم پر کوہِ وِداع کی گھاٹیوں سے چودھویں کے چاند نے طلوع کیا ہے ۔ اِس لیئے اب ہم پر ہمیشہ کے لیئے خدا کا شکر واجب ہو گیا ہے۔
مسلمانوں کے بچے مدینہ کی گلی کوچوں میں گاتے پھرتے تھے کہ ’’محمدؐ آ گئے، خدا کے رسول آ گئے۔‘‘ اور مدینہ کے حبشی غلام آپؐ کی تشریف آوری کی خوشی میں تلوار کے کرتب دکھاتے پھرتے۔۔۔حتّی کہ آپؐ کی ناقہ بنو نجّار کے محلّہ میں پہنچی اِس جگہ بنو نجّار کے لوگ ہتھیاروں سے سجے ہوئے صف بند ہو کر آپؐ کے استقبال کے لیئے کھڑے تھے اور قبیلہ کی لڑکیاں دفیں بجا بجا کر یہ شعر گا رہی تھیں۔
نَحْنُ جَوَارٍ مِنْ بَنِی نَجَّارِ یَا حَبَّذَا مُحَمَّدًا مِنْ جَارِ
یعنی ہم قبیلہ بنو نجّار کی لڑکیاں ہیں اور ہم کیا ہی خوش قسمت ہیں کہ محمد رسول اللهؐ ہمارے محلّہ میں ٹھہرنے کے لیئے تشریف لائے ہیں۔
ہجرتِ مدینہ کے بعد حضرت ابوبکر صدّیقؓ کا قیام
ہجرتِ مدینہ کے بعد حضرت ابوبکر صدّیقؓ سُنح (مسجدِ نبویؐ سے دو میل کے فاصلہ پر واقع جگہ) میں بنو حارث بن خزرج سے تعلق رکھنے والےحضرت خُبیبؓ بن اَساف کےہاں ٹھہرے۔ ایک قول کے مطابق آپؓ کی رہائش حضرت خارجہؓ بن زید کے ہاں تھی۔ بعض روایات کے مطابق حضرت ابوبکرؓ نے سُنح ہی میں اپنا مکان اور کپڑا بنانے کا کارخانہ بنا لیا تھا جس سے کاروبار کیا۔
خطبۂ ثانیہ سے قبل مرحومین کا تذکرۂ خیر
خطبۂ ثانیہ سے قبل حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا۔ اِنْ شآء الله! یہ ذکر آئندہ بھی ہو گا نیز درج ذیل مرحومین کا تفصیلی تذکرۂ خیر فرمایا۔
شہیدمکرم چوہدری اصغر علی کلار صاحِب؍ اسیر راہِ مولیٰ؛ مکرم مرزا ممتاز احمد صاحِب؍ کارکن وکالتِ علیا ربوہ؛ مکرم کرنل عبدالخالق صاحِب؍ سابق ایڈمنسٹریٹر فضل عمر اہسپتال ربوہ، پاکستان
(خاکسار قمر احمد ظفر۔ نما ئندہ روزنامہ الفضل آن لائن جرمنی)