سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 15؍جولائی 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد ٹلفورڈ یو کے

حضرت ابوبکرؓ نے اِس ملک گیر فتنہ کا جس منصوبہ بندی اور سُرعت کے ساتھ قلع قمع کیا وہ آپؓ کی اعلیٰ صلاحیتوں کا آئینہ دار ہے اور صاف نظر آتا ہے کہ کس طرح قدم قدم پر آپؓ کوالٰہی تائید و نصرت حاصل تھی، ایک سال سے بھی کم مدت میں فتنۂ ارتداداور بغاوت پر قابو پا لینا، سرزمین عرب پر اسلام کی حاکمیت کو دوبارہ قائم کر دینا ، ایک حیرت انگیز کارنامہ ہے

حضور انور ایدہ الله نے تشہد، تعوذ اور سورۃالفاتحہ کی تلاوت کے بعد مسلمانوں کی مرتدباغیوں کے خلاف کندہ اور حضر موت کے علاقوں میں کی جانے والی کاروائیوں کی بابت مزید ارشاد فرمایا! صنعاء میں جب حضرت مُہاجر رضی الله عنہ کو استقرار حاصل ہو گیا تو آپؓ نے حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کو بذریعہ خط اپنی کاروائیوں سے مطلع کیا۔

حضرت مُہاجر رضی الله عنہ کو حضرت عکرمہؓ سے جاملنے کا حکم ملا

پھر دونوں کو مِل کر حضر موت پہنچنے، زیادؓ بن لبید کا ساتھ دینے اور اُن کو اُن کے عہدہ پر باقی رکھتے ہوئے حکم فرمایا! تمہارے ساتھ مِل کر جو لوگ مکہ اور یمن کے درمیان جہاد کرتے رہے ہیں اُنہیں لَوٹنے کی اجازت دے دو سوائے اِس کے کہ وہ بذات خود جہاد کو ترجیح دیں۔ عکرمہؓ کو حضرت ابوبکرؓ کا خط موصول ہؤا تو وہ مَہرہ سے نکلے اور اَبْیَن (یمنی بستی) میں قیام پذیر ہو کرحضرت مُہاجرؓ کا انتظار کرنے لگے۔

مرتدین قبیلہ کندہ کے خلاف کاروائیوں کا پس منظر از تاریخ طبری

جب رسول الله صلی الله علیہ و سلم کی وفات ہو گئی اور وصولیٔ زکوٰۃ کا وقت آیا تو زیادؓ نے لوگوں کو اپنے پاس بلایا، بنو ولیعہ (اہل کندہ) نے کہا! تم نے جیسا کہ رسول اللهؐ سے وعدہ کیا تھااموال زکوٰۃ ہمارے پاس پہنچا دو تو اُنہوں نے کہا! تمہارے پاس باربرداری کے جانور ہیں، اِنہیں لاؤ اور اپنے امول زکوٰۃ لے جاؤ۔ اُنہوں نے خود ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور کندی اپنے مطالبہ پر مُصر رہے، اُن کا طرز عمل متذبذب ہو گیا نیز زیادؓ، مُہاجرؓ کے انتظار میں اُن کے خلاف کوئی کاروائی کرنے سے رُکے رہے۔ حضرت مُہاجرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے اول الذکر ارشاد پر عمل کیا، وہ صنعاء سے جبکہ عکرمہؓ اَبْیَن سے حضرموت کے ارادہ سے روانہ ہوئےاور مآرب مقام پر دونوں مِل گئے ۔

جب کندی حضرت زیادؓ سے خفاء ہو کر واپس چلے گئے

آپؓ نے بنو عَمرو سے زکوٰۃ کی وصولی اپنے ذمہ لے لی، کندہ کے ایک نوجوان نے غلطی سے اپنے بھائی کی اونٹنی زکوٰۃ کے لئے پیش کر دی تو آپؓ نے آگ سے داغ کر اُس پر زکوٰۃ کا نشان لگا دیا۔ جب اِس لڑکے نے غلطی کا اظہار کرتے ہوئے اونٹنی بدلنے کا کہا تو آپؓ اِسے بہانہ بازی سمجھتے ہوئے راضی نہ ہوئے، اِس پر اونٹنی دینے والوں نے اپنے قبیلہ کے لوگوں اور ابو سمیط کو مدد کے لئے پکارا۔ ابو سمیط نے جب حضرت زیادؓ سے اونٹنی بدلنے کا مطالبہ کیا تو آپؓ اپنے مؤقف پر مُصر رہے، ابو سمیط کو غصہ آیا اور اُس کے زبردستی اونٹنی کھولنے پر آپؓ کے ساتھیوں نے ابوسمیط اور اُس کے ساتھیوں کو قید اور اونٹنی کوبھی قبضہ میں لے لیا۔ ایک دوسرے کو مدد کے لئے پکارنے پر بنو معاویہ (بنو حارث بن معاویہ اور بنو عَمرو بن معاویہ قبیلہ کندہ کی شاخیں) ابو سمیط کی مدد کے لئے آ گئےنیز حضرت زیادؓ سے اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا لیکن آپؓ نے اُن کے منتشر ہونے تک ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ جب یہ لوگ منتشر نہ ہوئے تو آپؓ نے حملہ کر کےاُن کے بہت سے آدمیوں کو قتل کر دیا اور کچھ لوگ وہاں سے فرار ہو گئے۔ آپؓ نے واپس آکر اُن کے قیدی بھی رہا کر دیئے مگر اُن لوگوں نے لَوٹ کر جنگ کی تیاری شروع کر دی۔ چنانچہ بنو عَمرو، بنو حارث، اشعث بن قیس اور سمط بن اَسود اپنے اپنے مورچوں میں چلے گئے، زکوٰۃ دینے سے انکار کرتے ہوئے ارتداد اختیار کر لیا۔

جس پر حضرت زیادؓ نے فوج جمع کر کے بنو عَمرو پر حملہ کر دیا

اُن کے بہت سے آدمی قتل، جو بھاگ سکتے تھے وہ بھاگ گئے اور ایک بڑی تعداد کو آپؓ نے قید کر کے مدینہ روانہ کر دیا، راستہ میں اشعث اور بنو حارث کے لوگوں نے حملہ کر کے مسلمانوں سے اپنے قیدی چُھڑوا لئے۔ اِس واقعہ کے بعد اطراف کے کئی قبائل بھی اُن لوگوں کے ساتھ مِل گئے اور اعلان ارتداد کر دیا۔ اِس پر آپؓ نے مدد کے لئے بطرف حضرت مُہاجرؓ خط لکھا، حضرت مُہاجرؓ نے حضرت عکرمہ رضی الله عنہ کو اپنا نائب بنایا اور خود اپنے ساتھیوں کو لے کر کندہ پر حملہ آور ہوئے۔ کندہ کے لوگ بھاگ کر نجیر نامی اپنے ایک قلعہ میں محصور ہو گئے، بعد ازاں جس کے تینوں راستوں پر مسلمان قابض ہو گئے۔ جب محصورین قلعہ نجیر نے دیکھا کہ مسلمانوں کو برابر امداد پہنچ رہی ہے تو اُن پر دہشت طاری ہو گئی، اِس وجہ سے اُن کا سردار اشعث فورًا حضرت عکرمہؓ کے پاس پہنچ کر امان کا طالب ہؤا۔

حضرت عکرمہؓ اشعث کو لے کر حضرت مُہاجرؓ کے پاس آئے

اُس نے اپنے اور اپنے ساتھ 9 افراد کے لئے اِس شرط پر امان طلب کی کہ وہ مسلمانوں کے لئے قلعہ کا دروازہ کھول دیں گے، حضرت مُہاجرؓ نے یہ شرط تسلیم کر لی۔ جب اشعث نے نام لکھے تو جلد بازی اور دہشت کی وجہ سے اپنا نام لکھنا بھول گیا ، پھر حضرت مُہاجرؓ کے پاس تحریر لے کر گیا جس پر اُنہوں نے مہر ثبت کر دی۔ بعدازاں قلعہ کا دروازہ کھلنے پر فریقین کی لڑائی میں 700کندی قتل اور ایک ہزار عورتوں کو قید کر لیا گیا نیز امان نامہ میں درج تمام لوگوں کو معاف کر دیا گیا مگر اِس میں اشعث کا نام نہ ہونے پر حضرت مُہاجرؓ نے اُس کے قتل کا ارادہ کر لیا مگر درخواست حضرت عکرمہؓ پر اُسے بغرض فیصلہ باقی قیدیوں کے ہمراہ بخدمت حضرت ابوبکرؓ روانہ کر دیا گیا۔

اشعث کی طلبی و جان بخشی

جب مسلمان فتح کی خبر اور قیدیوں کے ساتھ بخدمت حضرت ابوبکرؓ حاضر ہوئے تو آپؓ نے اشعث کو طلب کیا اور فرمایا! کیا تم اِس بات سے نہیں ڈرتے، تمہیں رسول اللهؐ کی بددعاء کا ایک حصہ پہنچے (دراصل آنحضرتؐ نے قبیلہ کندہ کے چار سرداروں پر لعنت کی تھی جنہوں نے اشعث کے ساتھ اسلام قبول کیا مگر پھر مرتد ہو گئے)۔ مزید گفتگو کے بعد جب اشعث ڈرا کہ وہ مارا جائے گا تو اُس نے عرض کیا! اگر آپؓ مجھ سے کسی بھلائی کی توقع رکھتے ہیں تو اِن قیدیوں کو آزاد اور میری لغزشیں معاف اور میرا اسلام قبول کر لی جئے اور میرے ساتھ وہی سلوک رَوا رکھئے جو مجھ جیسوں کے ساتھ آپؓ کیا کرتے ہیں اور میری بیوی (اُمّ فَرْوَہ) میرے پاس واپس لَوٹا دی جئے، آپؓ مجھے الله کے دین کے لئے اپنے علاقہ کے بہترین لوگوں میں پائیں گے۔ اِس پر آپؓ نے اُس کی جان بخش دی نیز فرمایا! جاؤ اور مجھے تمہارے متعلق خیر کی خبریں پہنچیں۔

عرب سے بغاوت کا مکمل طور پر خاتمہ

الغرض جب تک پوری طرح قیام امن و امان اور اسلامی حکومت کی بنیادیں مستحکم نہ ہو گئیں حضرت مُہاجرؓ اور حضرت عکرمہؓ اُس وقت تک حضرموت اور کندہ میں ہی مقیم رہے۔ مرتد باغیوں کے ساتھ یہ آخری جنگیں تھیں، اِن کے بعد عرب سے بغاوت کا مکمل طور پر خاتمہ ہو گیا اور تمام قبائل حکومت اسلامیہ کے زیر نگیں آ گئے۔

اکثر مصنفین اور خاص طور پر اِس زمانہ کے سیرت نگار

عمومًا حضرت ابوبکرؓ کی اِن جنگوں کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ گویا جن لوگوں نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا اُن کے خلاف یہ سارا جہاد اور تلوار کے زور سے اُن کا قلع قمع کیا گیا کیونکہ یہی اُن کی شرعی سزاء تھی لیکن تاریخ و سیرت کا مطالعہ کرنے والا ہرگز اِس بات کی تائید نہیں کر سکتا جیسا کہ قرآن کریم اور آنحضرتؐ کے مبارک طرزعمل اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں پہلے بیان ہو چکا ہے کہ نہ تو آنحضرتؐ نے کبھی محض نبوت کا دعویٰ کرنے پر کوئی کاروائی فرمائی اور نہ ہی حضرت ابوبکرؓ کی یہ جنگی مہمات صرف اِس وجہ سے تھیں کہ جھوٹے مدعیان نبوت کا قلع قمع کیا جاتا بلکہ اصل سبب اِن کی باغیانہ روش تھی۔

مدعیان نبوت سے صحابہؓ نے کیوں جنگیں کیں

حضرت المصلح الموعودؓ نے اِس بات کی وضاحت کرتے ہوئے بیان فرمایا ہے۔ مولانا مودودی صاحب کا یہ لکھنا کہ صحابہؓ نے ہر اُس شخص کے خلاف جنگ کی جس نے آنحضرتؐ کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا، صحابہؓ کے اقوال کے خلاف ہے۔۔۔ تاریخ ابن خَلدون کو اگر غور سے پڑھتے تو یہ واضح ہو جاتا کہ اُن کا نظریہ غلط ہے۔

محور سیاست حضرت ابوبکر صدیقؓ فروغ اسلام و فتوحات عراق

مرتد باغیوں کا قلع قمع کرنے کے بعد ہر شخص کو یہ یقین ہو گیا تھا کہ اب خلیفۂ رسول ؐ کے سامنے کوئی فتنہ پرداز جم نہیں سکتا لیکن عام لوگوں کی طرح آپؓ کسی خوش فہمی کا شکار نہ تھے، آپؓ جانتے تھے کہ بیرونی طاقتیں ارتداد اور بغاوت کے فتنہ کے خوابیدہ کو پھر سے بیدار کر کے بدامنی پھیلانے کا موجب بن سکتی ہیں۔ عرب قبائل کی اِس متوقع شورش انگیزی سے بچنے کے لئے مناسب سمجھا گیا کہ عرب قبائل کی توجہ ایران اور شام کی طرف منعطف کی جائے تاکہ اُنہیں حکومت کے خلاف فساد برپا کرنے کا موقع نہ مِل سکے اور اِس طرح مسلمانوں کو اطمنان نصیب ہو اور وہ دلجمعی سے احکام دین پر عمل پیراء ہو سکیں۔ چنانچہ عرب سرحدوں کے دفاع اور اسلامی ریاست کو اپنے مضبوط حریفوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ضروری ہو گیا تھا کہ اِن طاقتور قوموں تک عالمگیرپیغام اسلام پہنچایا جائے تاکہ یہ قومیں اِسے تسلیم کر کے یا سمجھ کر خود بھی امن و سلامتی سے زندگی بسر کریں اور دوسرے بھی اِن کی چیرہ دستیوں سے محفوظ و مامون رہیں۔ خطبہ کے اختتامی حصہ میں حضور انور ایدہ الله نے اِس سلسلہ میں حضرت ابوبکرؓ کے اختیار کئے گئے طریق اور حکمت عملی پر تفصیلی روشنی ڈالی نیز خطبۂ ثانیہ سے قبل عندیہ دیا! آپؓ کے دَور خلافت میں مسلمانوں کی ایرانیوں کے خلاف علاقۂ عراق میں لڑی گئی جنگوں اور اُن میں عطاء ہونے والی فتوحات کا تذکرہ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ آئندہ ہو گا۔

(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل آن لائن جرمنی)

Leave a Reply