سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 16؍ستمبر 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ وہ سب سےپہلے شخص تھے جن کی چار پشتوں کو شرف صحابیت حاصل ہے۔ آپؓ کے والد حضرت ابو قُحافہؓ، آپؓ خود، آپؓ کےبیٹے عبدالرحمٰنؓ بن ابوبکرؓ اور آپؓ کے پوتے حضرت محمدؓ بن عبدالرحمٰنؓ بن ابوبکرؓ، یہ سب صحابہؓ تھے

حضور انور ایدہ الله نے تشہد، تعوذ اور سورۃالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے زمانہ کے کارناموں کے تذکرہ کے تسلسل میں ذمیوں کے حقوق کی بابت کچھ تفصیل بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا!

ذمی وہ لوگ تھے

جو اسلامی حکومت کی اطاعت قبول کر کےاپنے مذہب پر قائم رہے اور اسلامی حکومت نے اُن کی حفاظت کا ذمہ لیا۔ یہ لوگ مسلمانوں کے برعکس فوجی خدمت سے بَری اور زکوٰۃ بھی اُن پر عائد نہیں ہوتی تھی، اِس لئے اُن کے جان و مال اور دوسرے انسانی حقوق کی حفاظت کے بدلہ اُن سے ایک معمولی ٹیکس (عرف عام میں کہلانے والا جزیہ) چار دِرہم سالانہ نیز صرف بالغ، تندرست اور قابل کار افراد سے وصول کیا جاتا جبکہ بوڑھے، اپاہج، نادار، محتاج اور بچے اِس سے بَری تھے بلکہ معذوروں اور محتاجوں کو اسلامی بیت المال سے مدد دِی جاتی تھی۔

حضرت ابوبکرؓ کے عہد زرّیں کا بے مثال اور عظیم کارنامہ

آپؓ کے زمانہ میں ہونے والا ایک بہت بڑا کام جمعٔ قرآن ہے، اِس کا پس منظر مُسَیْلمہ سے ہونے والی جنگ یمامہ سے متصل ہے جس میں بارہ سَو مسلمان شہید ہو گئے جن میں کبار صحابہؓ اور حفّاظ قرآن کی بھی ایک واضح اکثریت اور بمطابق ایک روایت حفّاظ شہداء کی تعداد سات سَو تک بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ اِس صورتحال میں حضرت عمر فاروقؓ کو الله تعالیٰ نے قرآن مجید ایک جگہ اکٹھا کرنے کے لئے انشراح صدر عطاء فرمایا اور آپؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے اِس کا تذکرہ کیا۔ آپؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا! وہ کام تُو کیسے کرے گا جو رسول اللهؐ نے نہیں کیا۔ تو حضرت عمرؓ نے کہا! اِس کام میں بخدا خیر ہی خیر ہے اور آپؓ نے یہ بات حضرت ابوبکرؓ سے اتنی بار کی کہ الله تعالیٰ نے اُن کو اِس کام کے لئے انشراح صدر عطاء فرمادی۔

یہ تو بہت بڑا کام ہے جو میرے سپرد کیا گیا

حضرت ابوبکرؓ نے جمعٔ قرآن کا کام کاتب وحی حضرت زیدؓ بن ثابت کے سپرد کیا تو اِس پر اُنہوں نےکہا کہ الله کی قسم! اگر کسی پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی ذمہ داری میرے سپرد کرتے تو وہ میرے لئے قرآن کریم کے جمع کرنے کے حکم سے زیادہ گراں نہ ہوتی۔ مزید عرض کیا! آپ لوگ وہ کام کیسے کریں گےجو رسول اللهؐ نے نہیں کیا، حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا! بخدا یہ کام سراسر خیر ہے۔ آپؓ نے اتنی بار یہ بات دُہرائی کہ الله تعالیٰ نے حضرت زیدؓ بن ثابت کو انشراح صدر عطاء فرما دیا۔

پس حضرت زیدؓ نے قرآن کریم کی تلاش شروع کر دی

اور اُسے کھجوروں کی شاخوں، سفید پتھروں اور لوگوں کے سینوں سے اکٹھا کیا یہاں تک کہ سورۃ التّوبہ کا آخری حصہ آپؓ کو حضرت خُزیمہ انصاریؓ سے ملا جو اِ ن کے سواء کسی اور سے نہیں ملا۔

الله تعالیٰ حضرت ابوبکر صدیق ؓ پر رحمت نازل فرمائے

حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں۔ الله تعالیٰ حضرت ابوبکر صدیق ؓ پر رحمت نازل فرمائے، وہی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے قرآن کریم کو کتابی صورت میں محفوظ کیا تھا۔

قرآن کریم اپنی اصل حالت میں موجودہے

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ارشاد فرماتے ہیں۔ قرآن بلاشبہ وحی متلوّ ہے اور پورے کا پورا یہاں تک کہ نقطے اور حروف بھی قطعی متواتر ہیں اور الله نے اِسے کمال اہتمام کے ساتھ فرشتوں کی حفاظت میں نازل فرمایا۔۔۔ نبی کریم ؐ نے اِسے مکمل طور پر جمع فرمایا اور بنفس نفیس آیات کو ترتیب دیا اور اُنہیں جمع کیا اور نماز میں اور نماز سے باہر اِس کی تلاوت پر مداومت فرمائی یہاں تک کہ آپؐ دنیا سے رحلت فرما گئے۔۔۔ پھر اِس کے بعد خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اِس کی تمام سورتوں کو نبی کریمؐ سے سنی ہوئی ترتیب کے مطابق جمع کرنے کا اہتمام فرمایا، پھر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے بعد الله نے خلیفۂ ثالث حضرت عثمانؓ کو توفیق عطاء فرمائی تو آپؓ نے لغتِ قریش کے مطابق قرآن کو ایک قرأت پر جمع کیا اور اُسے تمام ملکوں میں پھیلا دیا۔

صحیفۂ صدیقی کب تک محفوظ رہا؟

حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے حضرت زیدؓ بن ثابت کے ذریعہ جس قرآن کریم کو ایک جِلد میں مرتب کروایا اُس کو صحیفۂ صدیقی بھی کہا جاتا ہے۔یہ آپؓ کی وفات تک آپؓ کے پاس رہا، اِس کے بعد حضرت عمرؓ کے پاس آگیا اور آپؓ نے حضرت اُمّ المؤمنین حضرت حفصہ رضی الله عنہا کے سپرد کر دیا نیز ارشاد فرمایا کہ کسی شخص کو نہ دیا جائے البتہ جس کو نقل یا اپنا نسخہ صحیح کرنا ہو وہ اِس سے فائدہ اُٹھا سکتاہے۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ نے اپنے عہد خلافت میں حضرت حفصہؓ سے عاریتًا لے کر چند نسخے نقل کروائے اور پھر وہ نسخہ آپؓ کو واپس لَوٹا دیا۔ جب چوّن ہجری میں مروان مدینہ کا حاکم ہؤا تو اُس نے اِس نسخہ کو حضرت حفصہؓ سے لینا چاہا لیکن آپؓ نے انکار کر دیا تاہم آپؓ کے انتقال کے بعد مروان نے حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما سے لے کر اُس کو ضائع کر دیا۔

اوّلیت

جو کارنامے آپؓ نے سب سے پہلے سر انجام دیئے اُنہیں اوّلیات ابوبکر رضی الله عنہ کانام دیا گیا ہے۔ آپؓ سب سے پہلے اسلام لائے، مکہ میں اپنے گھر کے سامنے سب سے پہلے مسجد بنائی، مکہ میں رسول اکرمؐ کی حمایت میں سب سے پہلے قریش مکہ سے قتال کیا، سب سے پہلے متعدد غلاموں اور باندیوں کو جو اسلام لانے کی پاداش میں ظلم و ستم کا شکار تھے خرید کر آزاد کروایا، سب سے پہلے قرآن کریم کو ایک جِلد میں جمع کیا، سب سے پہلے آپؓ نے قرآن کا نام مصحف رکھا، سب سے پہلے خلیفۂ راشد قرار پائے، زندگیٔ رسول اللهؐ میں سب سے پہلے امیر الحج مقرر ہوئے، زندگیٔ رسول اللهؐ میں سب سے پہلے نماز میں مسلمانوں کی امامت کی، اسلام میں سب سے پہلے بیت المال قائم کیا، اسلام میں سب سے پہلے خلیفہ ہیں جن کا مسلمانوں نے وظیفہ مقرر کیا، سب سے پہلے خلیفہ جنہوں نے اپنا جانشین نامزد کیا، وہ پہلے خلیفہ ہیں جن کی بیعت خلافت کے وقت اُن کے والد حضرت ابوقُحافہؓ زندہ تھے، وہ سب سے پہلے شخص جنہیں اسلام میں کوئی لقب رسول اللهؐ نے عطاء فرمایا اور سب سے پہلے شخص جن کی چار پُشتوں کوشرف صحابیت حاصل ہے۔

مناقب عالیہ

آپؓ کے حلیہ کی بابت حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں۔ آپؓ گورے رنگ کے دُبلے پتلے شخص تھے، رُخساروں پر گوشت کم، کمر زرا خمیدہ (جھکی ہوئی) تھی کہ آپؓ کا تہ بند بھی کمر پر نہیں رکتا تھا اور نیچے سِرک جاتا، چہرہ کم گوشت والا، آنکھیں اندر کی طرف اور پیشانی بلند تھی۔بروایت حضرت انسؓ بن مالک آپؓ مہندی اور کتم کا خزاب لگاتے تھے۔

خشیّت الٰہی اور زُہد و تقویٰ

حضرت نبی کریمؐ نےحضرت ربیعہؓ بن جعفر اور آپؓ کو کچھ زمین عطاء فرمائی، دونوں میں ایک درخت کے لئے اختلاف ہو گیا۔ آپؓ نے بحث کے دوران کچھ سخت بات کہہ دی لیکن بعد میں اُس پر نادم ہوئے اور کہا! ربیعہ تم بھی مجھے کوئی ایسی سخت بات کہہ دو تاکہ وہ اِس کا قصاص ہو جائے لیکن اُنہوں نے انکار کر دیا۔ دونوں بخدمت نبی کریمؐ حاضر ہوئے، سارا واقعہ بیان کرنے پر آپؐ نے فرمایا! ربیعہ تم سخت جواب نہ دو لیکن یہ دعا دو۔ غَفَرَاللّٰهُ لَكَ یَا اَبَا بَکْرٍ، اے ابوبکر! الله تم سے درگزر فرمائے۔اِس پر اُنہوں نے ایسا ہی کیا، یہ بات سن کر اِس قدر اثر ہؤا کہ حضرت ابوبکرؓ زارو قطار روتے ہوئے واپس لَوٹے۔

ایک مؤمن کامل کا فقرہ

حضرت المصلح الموعودؓ ارشاد فرماتے ہیں۔ بعض مسلمان فرقے صحابہؓ کے بُغض میں اِس قدر بڑھ گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ موت کے وقت یہی فقرہ یَقُوۡلُ الۡکٰفِرُ یٰلَیۡتَنِیۡ کُنۡتُ تُرٰبًا (النباء: 41) کہتے تھے، پس (نعوذبالله!) اُن کا کفر ثابت ہے۔ حالانکہ اگر یہ روایت ثابت اور یہ آیت آپؓ کے متعلق ہو تو آپؓ کے ایمان کے لحاظ سے اِس کے یہ معنی ہوں گے کہ کفار کی باتوں کا منکر یعنی ابوبکرؓ یہ کہے گا! کاش میرے ساتھ خدا تعالیٰ کا معاملہ ایسا ہی ہوتا، نہ وہ میرے نیک اعمال کا بدلہ اور نہ میری غلطیوں کی سزاء دیتا اور یہ فقرہ تو ایک مؤمن کامل کا فقرہ ہے۔۔۔قرآن کریم طنزًا کہتا ہے کہ یہ قربانیاں دینے والا شخص تو کافر ہے مگر وہ لوگ جنہوں نے اُس کے اعمال کے مقابلہ میں کوئی نسبت بھی عمل کی نہیں دکھائی وہ مؤمن بنتے پھرتے ہیں۔

آپؓ اِس حد تک احتیاط فرماتے

ابن ابی ملیکہؒ بیان فرماتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ سے لگام چھوٹ کر اگر گر جاتی تو آپؓ اپنی اونٹنی کو بٹھاتے اور وہ لگام اُٹھاتے۔ اُن سے کہا گیا کہ آپؓ نے کیوں ہمیں حکم نہیں دیا تا ہم آپؓ کو پکڑا دیتے۔ آپؓ فرماتے! میرے محبوبؐ نے مجھے اِس بات کا حکم دیا تھا کہ مَیں لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کروں۔

مقام و مرتبہ

حضرت المصلح الموعودؓ بیان فرماتے ہیں۔ رسول کریم ؐ نے ایک دفعہ مسجد میں لوگوں کی بات سنی کہ ابوبکر کو ہم پر کونسی زیادہ فضیلت حاصل ہے؟ جیسے نیکی کے کام وہ کرتے ہیں، اُسی طرح نیکی کے کام ہم کرتے ہیں۔ آپؐ نے یہ سنا تو فرمایا۔اے لوگو! ابوبکر کو فضیلت نماز اور روزوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اُس نیکی کی وجہ سے ہے جو اُس کے دل میں ہے۔

حضرت علی رضی الله عنہ کا خراج عقیدت

حضرت ابن عبّاس رضی الله عنہما سے مروی ہے۔ مَیں اُن لوگوں میں کھڑا تھا جنہوں نے حضرت عمرؓ بن خطاب کی وفات کے بعد اُن کے لئے دعا کی جبکہ اُنہیں تختہ پر رکھ دیا گیا، اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص نے میرے پیچھے سے آ کر اپنی کہنی میرے کندھے پر رکھ دی اور کہنے لگا! الله تم پر رحم کرے، مجھے تو یہی امید تھی کہ الله تمہیں بھی ہمارے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی دفن کرے گاکیونکہ مَیں نے رسول اللهؐ کو یہ فرماتے ہوئے بہت سنا تھا! مَیں اور ابوبکر اور عمر فلاں جگہ تھے اور مَیں نے اور ابوبکر اور عمر نے یہ کیا، مَیں اور ابوبکر اور عمر چلے گئے، اِس لئے مَیں یہ امید رکھتا تھا کہ الله تعالیٰ تم کو بھی اِن دونوں کے ساتھ ہی رکھے گا۔ حضرت ابن عبّاسؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے جو مُڑ کر دیکھا تو حضرت علیؓ بن طالب تھے۔

(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ الفضل آن لائن جرمنی)

Leave a Reply