خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک امیر المؤمنین سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیحِ الخامس ایدہ الله فرمودہ مؤرخہ 18؍مارچ 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد؍ٹلفورڈ یوکے
خدا کی قسم! اگر یہ لوگ رسولِ کریم صلی الله علیہ و سلم کے زمانہ میں اونٹ کا گُھٹنا باندھنے کی ایک رسّی بھی زکوٰۃ میں دیا کرتے تھے تو مَیں وہ رسّی بھی اِن سے لے کر رہوں گا
حضورِ انور ایدہ الله نے تشہّد، تعوّذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضرت ابوبکر صدّیق رضی الله تعالیٰ عنہ کے حالاتِ زندگی کے ذکر میں مانعینِ زکوٰۃ کے متعلق آپؓ کے خیالات اور اُن کے ساتھ سلوک کےتسلسل میں ارشاد فرمایا۔
الله نے ابوبکرؓ کو حقّ پر راسخ کر دیا
قبائل مانعینِ زکوٰۃ نے اپنے وفد بھیجے جو عمائدینِ مدینہ کے ہاں فروکش ہوئے، حضرت عبّاسؓ کے علاوہ سب نے اُنہیں اپنا مہمان بنایا اور اُن کو حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں لے کر آئے اِس شرط پر کہ وہ نماز پڑھتے رہیں گے مگر زکوٰۃ نہ دیں گے۔ الله نے ابوبکرؓ کو حقّ پر راسخ کر دیا، آپؓ نے فرمایا! اگر یہ اونٹ باندھنے کی رسّی بھی نہ دیں گےتو مَیں اِن سے جہاد کروں گا۔
بر مؤقف حضرت ابوبکرؓ مدینہ سے واپسی پر وفود مانعینِ زکوٰۃ کی کیفیت
اِن وفود نے جب آپؓ کا عزم دیکھا تو مدینہ سے واپس ہو گئےلیکن مدینہ سے جاتے وقت دو باتیں اُن کےذہن میں تھیں۔
1۔ منعٔ زکوٰۃ کے سلسلہ میں کوئی گفتگو کارگر نہیں، اِس سلسلہ میں اسلام کا حکم واضح ہے اور خلیفہ کی اپنی رائے اور عزم سے پیچھے ہٹنے کی کوئی اُمّید نہیں، خاص کر جب کہ مسلمان دلیل کے واضح ہونے کے بعد آپؓ کی رائے سے متفق ہو چکے ہیں اور آپؓ کی تائید کے لئے کمر بستہ ہیں۔
2۔ بزعمِ خویش مسلمانوں کی کمزوری اور قلّتِ تعداد کو غنیمت جانتے ہوئے مدینہ پر ایک ایسا زور دار حملہ کیا جائے جس سے اسلامی حکومت گر جائے اور اِس دین کا خاتمہ ہو جائے۔
ممکنہ خطرہ کے پیشِ نظر حضرت ابوبکر صدّیقؓ کی منصوبہ بندی
اِن لوگوں نے واپس جا کر اپنے قبائل سے کہا کہ اِس وقت مدینہ میں بہت کم آدمی ہیں اور اُنہیں حملہ کرنے کی ترغیب دلائی جبکہ دوسری طرف حضرت ابوبکرؓ بھی غافل نہ تھے۔ اُنہوں نے اُس وقت وفد کے جانے کے بعد مدینہ کے تمام ناکوں پر باقاعدہ پہرے متعیّن کر دیئے۔ اِس کے علاوہ آپؓ نے تمام اہلِ مدینہ کو حکم دیا کہ وہ مسجد میں جمع ہوں اور پھر اُن سے فرمایا! تمام سرزمین کافر ہو گئی ہے اور اُن لوگوں کے وفود تمہاری قلّتِ تعداد کو دیکھ گئے ہیں اور تم لوگ نہیں جانتے کہ وہ دن کے وقت یا رات میں تم پر حملہ آور ہوں گے۔ اُن لوگوں کی سب سے قریب جماعت یہاں سے صرف ایک برید (بارہ میل) کے فاصلہ پر ہے اور کچھ لوگ خواہش رکھتے تھے کہ ہم اُن کی شرائط قبول کر لیں اور اُن سے مصالحت کر لیں مگر ہم نے اُن کی بات نہ مانی اور اُن کی شرائط مسترد کر دیں لہٰذا اب مقابلہ کے لئے بالکل تیار ہو جاؤ۔
حضرت ابوبکرؓ کا اندازہ بالکل درست نکلا
صرف تین راتیں گزری تھیں کہ اِن لوگوں نے رات ہوتے ہی مدینہ پر حملہ کر دیا، اپنے ساتھیوں میں سے ایک جماعت کو ذو حسّیٰ میں چھوڑ آئے تاکہ وہ بوقتِ ضرورت کمک کا کام دیں۔ بہرحال یہ حملہ کرنے والے رات کے وقت مدینہ کے ناکوں پر پہنچے، وہاں پہلے سے جنگجو متعیّن تھے۔اُن کے عقب میں کچھ اور لوگ تھے جو بلندی پر چڑھ رہے تھے، پہرہ داروں نے اُن لوگوں کو دشمن کی یورش سے آگاہ کیا۔ دشمن کی پیش قدمی کی اطلاع ملنے پر حضرت ابوبکرؓ نے یہ پیغام بجھوایا کہ سب اپنی اپنی جگہ پر جمے رہیں، جس پر تمام فوج نے ایسا کیا۔ پھر آپؓ مسجد میں موجود مسلمانوں کو لے کر اونٹوں پر سوار اُن کی طرف روانہ ہوئے اور دشمن پسپا ہو گیا۔
اونٹ اِس قدر بِدکے کہ کسی بھی طرح سنبھل نہ سکے
مسلمانوں نے اپنے اونٹوں پر اُن کا تعاقب کیا یہاں تک کہ وہ ذو حسّیٰ جا پہنچے، حملہ آوروں کی کمک والا گروہ چمڑے کے مشکیزوں میں ہوا بھر کر اور اُن میں رسّیاں باندھ کر مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے نکلا اور اُنہوں نے اِن مشکیزوں کو اپنے پیروں سے ضرب لگا کر اونٹوں کے سامنے لُڑھکادیا۔ اونٹ اِس قدر بِدکے کہ کسی بھی طرح سنبھل نہ سکے یہاں تک کہ وہ مدینہ پہنچ گئے، البتّہ اِس سے مسلمانوں کا کوئی نقصان نہ ہؤا۔
مسلمانوں کی اِس بظاہر پسپائی پردشمنوں کا گمان
مسلمان کمزور ہیں، اِن میں مقابلہ کی طاقت نہیں۔ اِس خام خیالی میں اُنہوں نے اپنے اُن ساتھیوں کو جو ذو القَصّہ میں فروکش تھے اِس واقعہ کی اطلاع دی، وہ اِس خبر پر بھروسہ کر کےاُس جماعت کے پاس آ گئے مگر اُن کو یہ معلوم نہ تھا کہ الله نے اِن کے متعلق کچھ اور ہی فیصلہ کیا ہے جس کو وہ بہر حال نافذ کر کے چھوڑے گا۔
رات بھر حضرت ابوبکرؓ اپنی فوج کی تیاری میں مصروف رہے
آپؓ رات کے پچھلے پہر پوری فوج کو ترتیب دے کر پیدل روانہ ہوئے۔ نعمانؓ بن مُقرّن میمنہ پر، عبداللهؓ بن مُقرّن میسرہ پر اور سُویدؓ بن مُقرّن فوج کے پچھلے حصّہ پر نگران تھے، اِن کے ساتھ کچھ سوار بھی تھے۔
یہ پہلی فتح تھی جو الله تعالیٰ نے مسلمانوں کو دی
ابھی فجر طلوع نہیں ہوئی تھی کہ مسلمان اور منکرینِ زکوٰۃ ایک ہی میدان میں تھے، مسلمانوں کی کوئی آہٹ اور بھنک بھی نہ اُن کو مل سکی کہ مسلمانوں نے اُن کو تلوار کے گھاٹ اُتارنا شروع کر دیا۔ صرف رات کے پچھلے پہر میں لڑائی ہوئی، آفتاب کی کرن نے ابھی مَطلعٔ اُفق کو اپنےجلوہ سے منوّر نہیں کیا تھا کہ منکرینِ نے شکست کھا کر راہِ فرار اختیار کی نیز سردارِ لشکر حِبال مارا گیا۔
اِس جنگ کو غزوۂ بدر سے مشابہت دیتے ہوئے ایک مصنّف لکھتے ہیں
اِس موقع پر ابوبکرؓ نے ایمان و یقین، عزم و ثبات اور حزم و احتیاط کا جو مظاہرہ کیا اِس میں مسلمانوں کے دل میں عہدِ رسول اللهؐ کے غزوات کی یاد تازہ ہو گئی۔ آپؓ کے عہد کی یہ پہلی لڑائی بڑی حد تک جنگِ بدر سے مشابہ ہے، اُس روز مسلمان صرف تین سو تیرہ کی قلیل تعداد میں تھے جبکہ مشرکینِ مکّہ کی تعداد ایک ہزار سے زائد تھی۔ اِس موقع پر بھی مسلمانوں کی تعداد بہت قلیل تھی، اِس کے بالمقابل عبس، ذُبیان اور غطفان کے قبائل بھاری جمیعت کے ساتھ حملہ آور ہوئے تھے۔۔۔جس طرح جنگِ بدر دُورس نتائج کی حامل تھی اِسی طرح اِس جنگ میں بھی مسلمانوں کی فتح نے اسلام کے مستقبل پر گہرا اثر ڈالا۔
بنو ذُبیان، بنو عبس اور اِن کی تقلید میں دیگر قبائل کا غیض و غضب
شکست کا یہ بدلہ لیا اُنہوں نےکہ جو نہتے مسلمان اُن کے علاقوں میں رہتے تھے اُن کو نہایت بے دردی سے طرح طرح کے عذاب دے کر شہید کر ڈالا۔ اِن مظالم کی اطلاع پر حضرت ابوبکرؓ نے قسم کھائی کہ وہ مشرکین کو خوب اچھی طرح قتل کریں گے اور ہر قبیلہ میں سے وہ جنہوں نے مسلمانوں کو قتل کیا تھا اُنہیں اُس کے بدلہ میں قتل کریں گے۔
طاقتور قبائل کا حال دیکھ کر کمزور قبائل زکوٰۃ لے کر مدینہ آنے لگے
حضرت ابوبکرؓ کی قیادت میں منکرینِ زکوٰۃ کا سدّباب ہونے پر یکے بعد دیگرے ہر جمیعت کے مدینہ نمودار ہونے پر لوگ کہتے یہ ڈرانے والے معلوم ہوتے ہیں مگر حضرت ابوبکرؓ نے ہر موقع پر یہ کہا کہ یہ خوشخبری دینے والے ہیں ، حمایت کے لئے آئے ہیں نقصان کے لئے نہیں۔ چنانچہ باقاعدہ طور پر معلوم ہونے پر کہ یہ اموالِ زکوٰۃ لے کرحمایتِ اسلام کے لئے آنے والی جماعتیں ہیں تو مسلمانوں نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا! آپؓ بڑے مبارک آدمی ہیں، آپؓ ہمیشہ سے بشارت دیتے چلے آئے ہیں۔
منکرینِ زکوٰۃ کے خلاف کامیابی کے بعد زکوٰۃ کی وصولیاں
اُس زمانہ میں اِس قدر صدقات مدینہ میں موصول ہوئے جو مسلمانوں کی ضرورت سے بچ گئے۔ اِنہی فتوحات اور بشارتوں کے دوران حضرت اُسامہؓ کا لشکر بھی کامیابی و کامرانی کے ساتھ مدینہ واپس لَوٹ آیا۔
مَیں آپ لوگوں کی غمّ خواری اپنی جان سے کروں گا
حضرت ابوبکرؓ کے لوگوں کے ہمراہ بر موقع ٔ روانگی ذو القَصّہ مسلمانوں نے عرض کی، اے خلیفۂ رسولؐ! آپؓ سے خدا کا واسطہ دے کر درخواست کرتے ہیں کہ آپؓ خود اِس مہم پر نہ جائیں کیونکہ خدا نخواستہ اگر آپؓ کو کوئی ضرر پہنچ گیا تو سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ آپؓ نے فرمایا! الله کی قسم، مَیں ہرگز ایسا نہیں کروں گا اور مَیں آپ لوگوں کی غمّ خواری اپنی جان سے کروں گا۔
کسی دعویٰ پر یا کسی کے دعویٰ پر یہ جنگ نہیں ہوئی تھی
شکست خوردہ باغی قبائل کی روش، اُن کے طُلَیحہ بن خویلد اور مُسیلمہ سے ملنے کے نتیجہ میں اُن کی قوّت و طاقت میں اضافہ نیز یمن میں بغاوت کے شعلے زور و شور سے بھڑکنے کے تناظر میں حضورِ انور ایدہ الله نے تصریح فرمائی۔ بہر حال یہ ہمیشہ یاد رہنا چاہیئے کہ اِن لوگوں نے بغاوت اور جنگ کی تھی صرف کسی دعویٰ پر یا کسی کے دعویٰ پر یہ جنگ نہیں ہوئی تھی۔
دنیا کے حالات کے لئے دعائیں کرتے رہیں اِن میں کمی نہ کریں
حضورِ انور ایدہ الله نے ارشاد فرمایا! جیسا کہ مَیں ہمیشہ آجکل تحریک کر رہا ہوں دنیا کے حالات کے لئے دعائیں کرتے رہیں اِن میں کمی نہ کریں۔ خاص طور پر یہ دعا کریں کہ دنیا اپنے پیدا کرنے والے کو پہچاننے لگ جائے، یہی ایک حل ہے دنیا کو تباہی سے بچانے کا۔ الله تعالیٰ رحم فرمائے اور ہماری دعائیں بھی قبول فرمائے۔
اِن کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ حقیقی بزرگ دیکھنے کا احساس پیدا ہوتا تھا
خطبۂ ثانیہ سے قبل حضورِ انورایدہ الله نے مرحوم مکرم و محترم مولانا مبارک احمد نذیر صاحب؍ سابق پرنسپل جامعۃ الاحمدیہ و سابق مشنری انچارج کینیڈا کا نماز کے بعد جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان کیا نیز تفصیلی تذکرۂ خیر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا! بڑے بے نفس، متوکّل اِلَی الله، دعاگو ، قناعت پسند انسان تھے، بڑے درویش صفت تھے، اِن کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ حقیقی بزرگ دیکھنے کا احساس پیدا ہوتا تھا۔۔۔ بہت سی خصوصیات کے حامل تھے اور ایک مثالی واقفِ زندگی تھے اور مُربّیان کے لئے خاص طور پر ایک نمونہ تھے، اِن کی زندگی دین کو دنیا پر مقدّم کرنے کی ایک عملی تصویر تھی۔ ہمیشہ جماعت کی خدمت کی اور خلیفہ ٔ وقت کی اطاعت کو اپنا نصب العین بنایا۔۔۔ آپ فنِ تقریر میں بھی مہارت رکھتے تھے، اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں بڑے قادر الکلام تھے، بہت پُر اثر تقریریں ہوتی تھیں۔۔۔ یقینًا وہ ایک عالم با عمل تھے اور اِسی لئے اُن کی تقریروں کا لوگوں پر اثر بھی بہت ہوتا تھا لیکن خلافت کے سامنے عاجزی کی انتہاء تھی اِن کی۔ الله تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے، اُن کی اولاد اور نسل کو اُن کے نقشِ قدم پر چلائے۔۔۔ اور الله تعالیٰ جماعت کو بھی اِن جیسے بے لوث خدمت کرنے والا عطاء فرماتا رہے۔
(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل آن لائن جرمنی)