سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 2؍ستمبر 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

یہاں یہ واضح ہو کہ فتح دمشق کو بعض لوگ حضرت عمر رضی الله عنہ کے عہد خلافت میں بیان کرتے ہیں لیکن معرکہ ٔدمشق حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کے عہد خلافت میں شروع ہو چکا تھا البتہ اِس کی فتح کی خبر جب مدینہ بھیجی گئی تو اُس وقت حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کی وفات ہو چکی تھی تو یہ آپؓ کے زمانہ کی آخری جنگ تھی

حضور انور ایدہ الله نے تشہد، تعوذ اور سورۃالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کے زمانہ میں ہونے والی جنگوں کے تذکرہ کے تسلسل میں ارشاد فرمایا! تیرہ ہجری میں ہونے والی فتح دمشق آپؓ کے زمانہ کی آخری جنگ تھی۔

حضرت ابوبکرؓ نے شام کی جانب مختلف لشکر روانہ فرمائے

حضرت ابو عُبیدہؓ کو ایک لشکر کا امیر بنا کر دمشق کے قریب شام کے ایک قدیم، مشہور اور بڑے شہر حِمص پہنچنے کا حکم دیا، حضرت ابوبکرؓ کے ارشاد پر حضرت خالدؓ بن ولید نے دمشق پہنچ کر دوسرے اسلامی لشکر کے ساتھ اِس کا محاصرہ کر لیااور اِس پر بیس دن کا عرصہ گزر گیا لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ اِسی دوران مسلمانوں کو خبر ملی کہ ہرقل بادشاہ نے مقام اَجنادین پر رومیوں کا بھاری لشکر جمع کیا ہے، یہ خبر سنتے ہی حضرت خالدؓ باب شرقی سے روانہ ہوکر باب جابیہ پر حضرت ابوعُبیدہ ؓکے پاس آئے اور صورتحال سے مطلع کرتے ہوئے اپنی رائے پیش کی کہ ہم محاصرۂ دمشق ترک کر کےاَجنادین میں رومی لشکر سے نمٹ لیں اور اگر الله نے ہمیں فتح دی تو پھر یہاں واپس لَوٹ آئیں گے، حضرت ابوعُبیدہؓ نے کہا! میری رائے اِس کے برعکس ہے۔

حضرت خالدؓ نے حضرت ابوعُبیدہؓ کی رائے سے اتفاق کیا

قلعہ کا محاصرہ جاری رکھا اور اِس طرح محاصرہ پر اکیس دن گزر گئے، حضرت خالدؓ نے مسلمانوں کو شدت حملہ بڑھانے کی ترغیب دیتے ہوئے خود باب شرقی سے پے در پے حملے شروع کئے، اِسی طرح مصروف جنگ تھے دیکھا کہ قلعہ کی دیوار پر جو رومی تھے وہ دفعتًا تالیاں بجا کر ناچنے کُودنے اور خوشی کا اظہار کرنےجبکہ مسلمان حیرت سے اِن کو دیکھنے لگے۔ حضرت خالدؓ نے ایک جانب دیکھاتو ایک بڑا غبار اُس طرف اُٹھتا نظر آیا جس کی وجہ سے آسمان تاریک اور دن کے وقت میں بھی اندھیرا چھایا ہوا دکھائی دیتا تھا، آپؓ فورًا سمجھ گئےکہ اہل دمشق کی مدد کے لئےہرقل بادشاد کا لشکر آ رہا ہے۔

تم ایک جرّی اور بہادر شخص کا انتخاب کرو

حضرت خالدؓ نے فوری حضرت ابو عُبیدہ ؓ کو صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ مَیں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ تمام لشکر لے کر ہرقل بادشاہ کےبھیجےہوئے لشکر سے مقابلہ کے لئے جاؤں لہٰذا اِس امر میں آپؓ کا مشورہ کیا ہے؟ حضرت ابو عُبیدہؓ نے فرمایا! یہ مناسب نہیں ہے کیونکہ اگر ہم نےاِس جگہ کو چھوڑ دیا تو مصیبت میں پھنس جائیں گے۔ اِس پر حضرت خالدؓ کے مزید رائے طلب کرنے پر آپؓ نے فرمایا! تم ایک جرّی اور بہادر شخص کا انتخاب کرو اور اِس کے ساتھ ایک جماعت کو دشمن کے مقابلہ کے لئے روانہ کرو، چنانچہ آپؓ نے حضرت ضرارؓ بن اَزْوَرْ کو پانچ سَو سواروں کا لشکر دے کر رومی لشکر سے مقابلہ کے لئے روانہ کیا۔

مسلمانوں نے بہادری سے رومی فوج پر مسلسل وار کئے

رومی سپۂ سالار کے بیٹے نے حضرت ضرارؓ پر حملہ کیا اور آپؓ کے بائیں بازو پر نیزہ مارا جس کی وجہ سے خون تیزی سے بہنے لگا مگر ایک لمحہ کے بعدہی آپؓ نے اُسےدل پر نیزہ مار کر قتل کر دیا، نیزہ اُس کے سینہ میں پھنس اور اِس کا پھل ٹوٹ گیا، رومی فوج نے نیزہ خالی دیکھا تو آپؓ کی طرف ٹوٹ پڑے اور آپؓ کو قید کر لیا۔جب یہ خبر حضرت خالدؓ بن ولید کو پہنچی تو بہت پریشان ہوئے اور ساتھیوں سے رومی لشکر کے متعلق خبر لے کر حضرت ابو عُبیدہؓ سے مشورہ کیا اور ببات حملہ رائے لی، اُنہوں نے فرمایا! دمشق کے محاصرہ کا معقول انتظام کر کےآپؓ حملہ کر سکتے ہیں۔

واللہ! یہ شخص نہایت دلیر اور بہادر معلوم ہوتا ہے

اِسی دوران فوج کے آگے آگے سرخ گھوڑے پر سوار زرّہ کے اوپر لباس پہنے ہوئے ایک نامعلوم شہ سوارکو دیکھا گیاجس کی وضع قطع سے بہادری، دانائی اور جنگی مہارت نمایاں تھی۔حضرت خالدؓ نے تمنا کی، کاش! مجھے معلوم ہوجائے کہ یہ شہ سوارکون ہے؟ لشکر اسلام جب کفار کے قریب پہنچا تو اُس نےاُن پر ایسی بہادری سے حملہ کیا کہ جس طرح باز چڑیوں پر جھپٹتا ہےنیز اُس کے ایک حملہ نے ہی لشکر دشمن میں تہلکہ ڈال دیا اور مقتولین کے ڈھیر لگا دیئے۔ حضرت خالدؓ کے اصرار اور دریافت کرنے پر اُس نے عرض کیا! ضرار کی بہن خولہؓ بنت اَزْوَرْ ہوں، بھائی کی گرفتاری کا پتا چلا تو مَیں نے وہی کیا جو آپؓ نے دیکھا۔

حضرت خالدؓ کے بھرپور حملہ کے نتیجہ میں رومیوں کے پیر اُکھڑ گئے

اور اُن کا لشکر تتر بتر ہو گیا، شجاعت کے جوہر دکھانے والے حضرت رافعؓ کو حضرت ابوبکرؓ نے ارشاد فرمایا! تم راستوں کو جانتے ہو، اپنی مرضی کے جوانوں کو لے کر حِمص پہنچنے سے پہلے حضرت ضرارؓ کو چھڑواؤ اور اپنے رب کے ہاں اجر پاؤ۔ وہ جانے ہی والے تھے کہ حضرت خولہؓ نے بھی منت سماجت کر کے ہمراہ جانے کی اجازت حاصل کر لی، بعد ازاں حملہ کے نتیجہ میں حضرت ضرارؓ کو الله نے رہائی دلائی۔

حضرت خالدؓ کا محاصرۂ دمشق ختم کرکے لشکر کو اَجنادین روانگی کا حکم

اہل دمشق ہرقل کے نہایت معتمد اور اعلیٰ درجہ کے تیر انداز بولص نامی ایک شخص کے پاس جمع ہو گئے، وہ اِس سے قبل کسی بھی جنگ میں صحابہ کے سامنے نہیں آیا تھا، اِس کو اپنا امیر بنایا اور ہرقسم کا لالچ دےکر جنگ پر آمادہ کیا، وہ نہایت تیزی سےچھ ہزار سوار اور دس ہزار پیدل لے کر مسلمانوں سے مقابلہ کے لئےنکل گیا۔حضرت ابوعُبیدہؓ بولص کے ساتھ مصروف جنگ تھے کہ اتنے میں مختلف علاقوں سے آنے والے مسلمانوں کے لشکر وں نے ایسا حملہ کیا کہ دمشق سے آکر حملہ کرنے والے رومیوں کو اپنی ذلت و خواری کا یقین ہو گیا۔ حضرت ضرارؓ آگ کے شعلہ کی طرح بولص کی طرف بڑھے، اُس نے جب آپؓ کو دیکھا تو پہچان کر کانپ اُٹھا اور پیدل بھاگ کھڑا ہوا، آپؓ نے اُس کا تعاقب کیا نیززندہ پکڑ کر قید کر لیا۔ اِس جنگ میں کفار کے چھ ہزار آدمیوں میں سےبمشکل سَو آدمی زندہ بچے۔ حضرت ضرارؓ،حضرت خولہؓ کی قید پر پریشان تھے جس پرحضرت خالدؓ نے آپؓ کو تسلی دی نیز دو ہزار سپاہیوں کو اپنےساتھ لیا اور باقی تمام افواج کو حضرت ابو عُبیدہؓ کے حوالہ کر دیا تاکہ عورتوں کی حفاظت ہو جائے اور خودبھی قیدی خواتین کی تلاش میں نکل گئے۔

جب قید کی جانے والی جگہ پر پہنچے تو دیکھا کہ غبار اُڑ رہا ہے

آپؓ کو تعجب ہوا کہ یہاں لڑائی کیوں ہو رہی ہے؟ پتا کرنے پر معلوم ہوا کہ بولص عورتوں کو گرفتار کر کےنہر کے پاس اپنے بھائی بُطرس کے انتظار میں رُک گیا اور اب وہ عورتوں کو آپس میں بانٹنے لگے تھے۔ اِن عورتوں میں سے اکثر بہادر، تجربہ کار شہ سوار اور ہر قسم کی جنگ جانتی تھیں، یہ آپس میں جمع ہوئیں اور حضرت خولہؓ نے اُنہیں مخاطب کرتے ہوئے جوش غیرت دلایا اور حمیّت کو بڑھایا نیز خیموں کے ستونوں کی مدد سے زنجیر کی کڑیوں کی مانند دشمن پر حملہ کیا، رومی اِن عورتوں کی جرأت اور بہادری دیکھ کر حیران رہ گئے۔ دشمن نےدوبارہ تیاری کی مگر ابتدائی حملہ سے قبل ہی مسلمان حضرت خالدؓ کی سرکردگی میں وہاں پہنچ گئے۔ جب بُطرس نے مسلمانوں کو دیکھا تو پریشانی میں بھاگنے لگا تو حضرت خالدؓ اور حضرت ضرارؓ کو اپنی طرف آتے دیکھا، مزید برآں حضرت ضرار ؓ کے نیزہ کے دوسرے وار کے نتیجہ میں ڈھیر ہو گیا۔ اِسی طرح بولص اپنے بھائی کا انجام سن کر ذاتی خواہش پرحضرت خالدؓ کے ہاتھوں قتل ہوا۔

جنگ اَجنادین کے بعد دمشق کا دوبارہ محاصرہ

فتح اَجنادین کے بعد حضرت خالد ؓنے اسلامی لشکر کو دمشق کی جانب دوبارہ کُوچ کرنے کا حکم دیا۔ اہل دمشق کو اَجنادین میں رومی لشکر کی شکست کی اطلاع پہلے ہی مِل چکی تھی مگر اسلامی لشکر کے دمشق آنے کی خبر سن کر وہ بہت گھبرائے۔ دمشق کے اطراف میں بسنے والےبھاگ کر قلعہ میں پناہ گزین ہو گئے، کافی تعداد میں غلّہ اور اشیائے صَرف جمع کر لیں نیز اِس کے علاوہ ہتھیار سامان جنگ بھی اکٹھا کر لیا تاکہ محاصرہ کرنے والوں پر حملہ کیا جاسکے۔اسلامی لشکر نے دمشق کے قریب پڑاؤ کیا پھر آگے بڑھ کر قلعہ کا محاصرہ کرلیا۔ دمشق کے رؤساء اور اہل دانش نے اپنے حاکم توما (دامادہرقل اعظم) سے ہرقل کی مدد طلب کرنےیا مسلمانوں سے مصالحت کا مشورہ دیا لیکن اُس نے تکبر اور غرور کا مظاہرہ کرتے ہوئے شدت سے مسلمانوں پر حملہ کا حکم دیا۔

صبر و استقلال کی پیکر حضرت اُمّ اَبّان رضی الله عنہا

اِن حملوں کے دوران کئی مسلمان زخمی اور شہید ہوئے، اُنہی میں سے حضرت اَبّانؓ بن سعید بھی تھے جن کی نئی نویلی دلہن حضرت اُمّ اَبّان ؓ نے نہایت عظم و استقلال سےشدید لڑائی کے دوران اپنے شوہر کے مقام شہادت(باب توما) پر توما کے محافظ کا نشانہ لیا جس کے ہاتھ میں صلیب اعظم تھی وہ گر گئی اور مسلمانوں کے ہاتھ لگ گئی، سخت لڑائی لڑتی رہیں اور اپنے تیروں کے ذریعہ کئی رومیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا، اِسی طرح آپؓ نے بعد ازاں موقع ملنے پر بذریعہ تیر توما کی آنکھ کا نشانہ بھی لیا اور ہمیشہ کے لئے اُسے ایک آنکھ سے اندھا کر دیا۔

مسلمانوں نے دمشق کا سخت محاصرہ کئے رکھا

اہل دمشق کو جب یقین ہو گیا کہ اُن کو امداد نہیں پہنچ سکتی تو اُن میں کمزوری اور بزدلی پیدا ہو گئی نیز مزید جدو جہد ترک کر دی، مسلمانوں کے دلوں میں اِن کو زیر کرنے کا جذبہ بڑھ گیا اور محاصرہ طویل ہوتا چلا گیا۔ حضرت خالدؓ نے دمشق میں داخل ہونے کی تدبیر یہ نکالی کہ چند رسیوں کو اکٹھا کر کے فصیل میں اُترنے اور اُن میں پھندا لگا کر سیڑھیوں کا کام لیا جا ئے، اِسی تدبیر کو اختیار کرتے ہوئے بعد ازاں اسلامی افواج دمشق میں داخل ہوگئیں۔ چاروں اسلامی اُمراء شہر کے وسط میں ایک دوسرے سے ملے۔ حضرت خالدؓ نے اگرچہ دمشق کا کچھ حصہ لڑ کر فتح کیا تھا لیکن چونکہ حضرت ابوعُبیدہ ؓنے صلح منظور کر لی تھی، اِس لئے مفتوحہ علاقہ میں بھی صلح کی شرائط تسلیم کی گئیں۔

خطبۂ ثانیہ سے قبل: حضور انور ایدہ الله نے مکرم عمر ابو اَرکوب صاحب سابق صدر جماعت جنوبی فلسطین، مٹھی کے سب سے پہلے احمدی مکرم شیخ ناصر احمد صاحب آف تھرپارکر سندھ پاکستان، مکرم ملک سلطان احمد صاحب سابق معلم وقف جدید اور مکرم محبوب احمد راجیکی صاحب آف سعد الله پور ضلع منڈی بہاؤالدین پاکستان کا تفصیلی تذکرۂ خیر نیز بعد از نماز جمعۃ المبارک جنازہ غائب پڑھانے کا بھی ارشاد فرمایا۔

(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ الفضل آن لائن جرمنی)

Leave a Reply