سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 20؍مئی 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

حضرت خالدؓ بن ولید دشمن کو کبھی بھی کمزور نہیں سمجھتے تھے، میدانِ معرکہ میں ہمیشہ پوری تیاری اور مکمل احتیاط کے ساتھ رہتے کہ اچانک دشمن حملہ نہ کردے اور کوئی سازش نہ کر بیٹھے۔ آپؓ کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ آپؓ خود سوتے نہیں تھے، دوسروں کو سلاتے تھے، پوری تیاری کے ساتھ رات گزارتے، آپؓ پر دشمن کی کوئی بات مخفی نہ رہتی

حضور انور ایدہ الله نے تشہد، تعوذ اور سورہ الفاتحہ کی تلاوت بعد جنگ یمامہ کی تفصیل میں ارشاد فرمایا! یمامہ میں سخت جنگجو قوم بنو حنیفہ آباد تھے، اِن کی بابت تفسیر قُرطبیؒ میں آیت سَتُدۡعَوۡنَ اِلٰی قَوۡمٍ اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ تُقَاتِلُوۡنَھُمۡ اَوۡ یُسۡلِمُوۡنَ (الفتح: 17) تم عنقریب ایک ایسی قوم کی طرف بلائے جاؤ گےجو سخت جنگجو ہو گی تم اُن سے قتال کرو گے یا وہ مسلمان ہو جائیں گے کی تفسیر میں لکھا ہے، رافعؓ بن خَدِیج کہتے ہیں ہم یہ آیت پڑھتے مگر یہ معلوم نہ تھا کہ یہ لوگ کون ہیں یہاں تک کہ حضرت ابوبکرؓ نے ہمیں بنو حنیفہ کے قتال کے لئے بلایا تو ہمیں پتا چلا کہ اِن سے مراد یہ قوم ہے۔

رسول الله صلی الله علیہ و سلم کی بادشاہ و اہلِ یمامہ کو دعوتِ اسلام

جب رسول الله ؐ نے ابتداء سات ہجری یا بعض کے نزدیک چھ ہجری میں مختلف ممالک کے بادشاہوں کو تبلیغی خطوط لکھے تو ایک خط یمامہ کے بادشاہ ہوذہ بن علی اور اہلِ یمامہ کے نام بھی لکھا۔

9ہجری میں مختلف وفود کی طرح وفد بنو حنیفہ کی مدینہ آمد

اِس وفد میں مُجاعہ بن مُرارہ کے علاوہ رَجّال بن عُنْفُوَہ، مُسَیْلمہ کذّاب اور ابو ثمامہ بھی شامل تھے۔ یہ وفد بنو نجار کی ایک انصاری خاتون رملہؓ بنت حارث کے وسیع گھر میں ٹھہرا، جب بغرضِ بیعت رسولِ کریم ؐ متواتر وفود آئے تو آپؐ نے مدینہ میں اِسی گھر کو مقرر کر لیا جہاں وفود ٹھہرتے تھے۔ مُسَیْلمہ ہمراہ اوّل الذکر وفد بشرفِ ملاقات رسول اللهؐ حاضر نہ ہو سکایا بعض روایات ایسی بھی ملتی ہیں جو اِس کے برعکس ہیں، حضور انور ایدہ الله نے اِس کی تصریح فرمائی! عمومًا اِسی بارہ میں روایات ہیں کہ مُسَیْلمہ پہلی مرتبہ آپؐ سے ملا، اِس بارہ میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہو سکتا ہے دوسری دفعہ جب آیا ہو تب ملاہو۔

اگر تُو یہ چھڑی بھی مانگے تو مَیں تجھے یہ بھی نہیں دوں گا

بروایت حضرت ابنِ عباس رضی الله عنہما زمانۂ رسول اللهؐ میں مُسَیْلمہ کذّاب آیا اور کہنے لگا! اگر محمدؐ اپنے بعد مجھے جانشین بنائیں تو مَیں اِن کی پیروی کروں گا۔ آپؐ خوداُس کے پاس تشریف گئے اور آپؐ کے ہاتھ میں کجھور کی ایک چھڑی تھی فرمایا! اگر تُو مجھ سے یہ چھڑی بھی مانگے تو مَیں تجھے یہ بھی نہیں دوں گا اور تُو اپنے متعلق ہرگز الله کے فیصلہ سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور اگر تُونے پیٹھ پھیری تو الله تیری جڑھ کاٹ دے گا اور مَیں دیکھتا ہوں کہ تُو وہی شخص ہے جس کے متعلق مجھے خواب میں بہت کچھ دکھایا گیا ہے۔

مَیں تم کو وہی شخص پاتا ہوں جس کے متعلق مجھے خواب میں دکھایا گیا

اِس ارشاد کی بابت عندالاستفسار حضرت ابنِ عباسؓ حضرت ابوہریرہؓ نے کہا، رسول اللهؐ نے فرمایا! ایک بار مَیں سویا ہؤا تھا اِس اثناء میں اپنے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن دیکھے اُن کی کیفیت نے مجھے فکر میں ڈال دیا پھر مجھے خواب میں وحی کی گئی کہ مَیں اِن پر پُھونکوں چنانچہ مَیں نے اُن پر پُھونکا اور وہ اُڑ گئے، مَیں نے اِن کی تعبیر دو جھوٹے شخص سمجھے جو میرے بعد ظاہر ہوں گے۔ راوی عُبید اللهؒ نے کہا! اِن میں سے ایک وہ عَنْسِی ہے جس کو فیرُوز نے یمن میں مار ڈالا اور دوسرا مُسَیْلمہ۔

وفد کی یمامہ واپسی پر الله کا دشمن مُسَیْلمہ مرتد ہو گیا

نبوت کا دعویٰ کر دیا اور کہا مجھے بھی آپؐ کے ساتھ نبوت میں شریک کر لیا گیا ہے، اپنے متبعین سے پوچھا کیا جب تم نے آپؐ کے پاس میرا ذکر کیا تھا تو اُنہوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ مکان و مرتبہ کے اعتبار سے تم سے بُرا نہیں ہے، یہ صرف اِس لئے کہا تھا کہ آپؐ جانتے تھے آپؐ نبی ہیں اور مجھے بھی آپؐ کے معاملہ میں شریک کر لیا گیا ہے۔

مُسَیْلمہ نے اپنی ہی شریعت شروع کر دی

پھر مُسَیْلمہ بناوٹ کر کے لوگوں کے لئے قرآ ن کریم کی نقل کرتے ہوئے کلام بنانے لگا اور اُن سے نماز معاف کر دی، بمطابق ایک روایت اُس نے دو نمازیں عشاء اور فجر معاف نیز لوگوں کے لئے شراب اور زناء کو حلال قرار دے دیا، اِس کے ساتھ وہ یہ بھی گواہی دیتا کہ آنحضورؐ نبی ہیں، بنو حنیفہ نے اِن باتوں پراِس سے اتفاق کر لیا۔

ایک اور سبب جس نے مُسَیْلمہ کی طاقت بڑھائی

وہ یمامہ کے رہائشی رَجّال بن عُنْفُوَہ کا اِس سے مِل جانا تھا، جو بعد ہجرت نبی کریمؐ کے پاس مدینہ آ گیا تھا جہاں اِس نےقرآن کریم پڑھا اور دینی تعلیم حاصل کی ۔ جب مُسَیْلمہ نے ارتداد اختیار کر لیا تو آپؐ نے اُسے اہلِ یمامہ کی طرف معلّم نیز لوگوں کو مُسَیْلمہ کی اطاعت سے روکنے کے لئے بھیجا لیکن یہ اُس سے زائد فتنہ کا باعث ہؤا، اِسی طرح اُس کی نبوت کا جھوٹا اقرار کرنے کے ساتھ ساتھ منجانب رسول اللهؐ ایک جھوٹا قول بھی منسوب کیا کہ مُسَیْلمہ نبوت میں آپؐ کے ساتھ شریک کیا گیا ہے، علم قرآن کے باعث لوگوں نے اُس کی باتوں کا یقین بھی کر لیا۔

متن خط مُسَیْلمہ بجانب رسول اللهؐ و جواب رسول اللهؐ

الله کے رسول مُسَیْلمہ کی جانب سے بنام رسول اللهؐ: امّا بعد! نصف زمین ہماری ہے اور نصف قریش کی مگر قریش انصاف نہیں کرتے۔اِس کے جواب میں آپؐ نےاُسے خط لکھا! بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ منجانب محمد نبیؐ بنام مُسَیْلمہ کذّاب: امّا بعد! یقیناً زمین الله ہی کی ہے ، وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے گا اُس کا وارث بنا دے گا اور عاقبت متقیوں کی ہی ہؤا کرتی ہے اور اِس پر سلامتی ہو جو ہدایت کی پیروی کرے۔

صبر و استقامت کے پہاڑ حضرت حبیبؓ نے جامِ شہادت نوش کر لیا

مؤخر الذکر خط حبیبؓ بن زید انصاری لے کر گئے، اُنہوں نے جب یہ خط مُسَیْلمہ کو دیا تو اُس نے کہا! کیا تم اِس بات کی گواہی دیتے ہو کہ محمدؐ الله کے رسول ہیں؟ جواب ملا، ہاں! پھر اُس کے اپنی نبوت کی گواہی مانگنے پر اُنہوں نے بات ٹالتے ہوئے کہا! مَیں بہرہ ہوں، مَیں سنتا نہیں۔ بار بار یہی سوال دہرانے نیز ہر مرتبہ حسبِ منشاء جواب نہ ملنے پر وہ اُن کے جسم کا ایک عضو کاٹ دیتا۔ آپؓ صبر و استقامت کا پہاڑ بنے رہے یہاں تک کہ اُس نے آپؓ کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے اور آپؓ جام شہادت نوش کر گئے۔

مُسَیْلمہ نے یمامہ میں علمِ بغاوت بلند کر دیا تھا

اُس نے عامِلِ نبی کریمؐ حضرت ثمامہؓ بن اثال کو وہاں سے نکال دیا، بعد از وفات رسول اللهؐ حضرت ابوبکرؓ نے بطرف مرتدین مختلف لشکر بھیجے جن میں حضرت عِکرمہؓ اور حضرت شُرَحْبِیْل ؓ بن حَسَنَہ کو آپؓ کے تاکیدی احکام کی عدم پیروی نیز جلد بازی سے کام لیتے ہوئے لڑائی شروع کرنے پر لشکر مُسَیْلمہ کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالدؓ بن ولید کو مُسَیْلمہ کی طرف بھیجا

نیز آپؓ کی مدد کے لئے بقیادت حضرت صلیدؓ مزید کمک بھی روانہ فرمائی تاکہ وہ اِن کے عقب کی حفاظت کرے، اُن کے ساتھ مِل کر جنگ کرنے کے لئے ایک جماعتِ مہاجرین و انصار بھی روانہ فرمائی۔ حضرت خالدؓ بن ولید بُطاح مقام پر اِس لشکر کا انتظار کر رہے تھے جب یہ سب آپؓ کے پاس پہنچ گئے تو بطرف یمامہ روانہ ہوئے۔بڑے معرکہ سے پہلے ہی بنو حنیفہ کے ایک سردار مُجاعہ بن مُرارہ کی ہمراہ اپنے ساتھیوں گرفتاری کے ضمن میں بیان ہؤا کہ سب کے قتل کے بعد باقی رہ جانے والے ساریہ بن مُسَیْلمہ بن عامر نےمشورہ دیا، اے خالدؓ! اگر تم اہلِ یمامہ کے بارہ میں کوئی خیر یا شر چاہتے ہو تو مُجاعہ کو زندہ رکھو کیونکہ یہ جنگ اور امن میں تمہارا مددگار ہوگا۔ آپؓ کو اُس کی بات پسند آئی اور مُجاعہ کو قتل نہ کیا بایں ہمہ اُسے بھی زندہ رکھا۔

بنو حنیفہ اور مسلمانوں کے مابین مقام عقرباء میں گھمسان کی جنگ

بافراغت گروہِ مُجاعہ حضرت خالدؓ یمامہ کی طرف چلے اور محکم منصوبہ بندی کا اہتمام کیا، آپؓ نے حضرت شُرَحْبِیْل بن حَسَنَہ کو آگے بڑھایا اور اسلامی فوج کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جو کہ قبل معرکہ آخری ترتیب تھی۔ مُسَیْلمہ کے حامی جنگوؤں کی تعداد چالیس ہزار جبکہ بمطابق دوسری روایت ایک لاکھ یا اُس سے بھی زیادہ جبکہ مسلمان دس ہزار سے زائد تھے، مسلمانوں کو اِس سے پہلے ایسی جنگ کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا، مسلمان پسپا ہو گئے۔ لشکر اسلام کے پیچھے ہٹنے کے باوجود حضرت خالدؓ بن ولید کے عزم و ثبات اور جرأت و استقلال میں ذرا بھی لغزش نہ آئی۔ آپؓ نے پکار کر اپنے لشکر سے کہا! اے مسلمانو، علیحدہ علیحدہ ہ ہو جاؤ تاکہ ہم دیکھ سکیں کہ کس قبیلہ نے لڑائی میں سب سے اچھا بہادری کا مظاہرہ کیا ہے، اِس اعلان سے گویا آپؓ نے تمام قبائل میں ایک نئی روح اور جذبۂ مسابقت پیدا کر دیا۔ آخر پر اِس تناظر میں مسلمانوں کو دلائی گئی مزید ترغیب بحوالۂ حضرت ثابتؓ بن قیس مختصر تفصیل بیان ہوئی جو کہ حَنُوط مَل کر کفن باندھے، دشمن کے بالمقابل ثابت قدم رہے یہاں تک کہ جامِ شہادت نوش کیا۔

خطبۂ ثانیہ سے قبل حضور انورایدہ الله نے ایک شہید اور دو مرحومین کا تفصیلی تذکرۂ خیر نیز بعد از نماز جمعۃ المبارک اِن کی نماز جنازہ غائب پڑھانے کا ارشاد فرمایا۔

(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل آن لائن جرمنی)

Leave a Reply