سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 06؍مئی 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے
جب حضرت ابوبکر رضی الله تعالیٰ عنہ نے مرتدین سے جنگ کے لئے حضرت خالدؓ بن ولید کے واسطے جھنڈا باندھا تو فرمایا: مَیں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ خالدؓ بن ولید الله کا بہت ہی اچھا بندہ ہے اور ہمارا بھائی ہے جو الله کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے جسے الله تعالیٰ نے کفار اور منافقین کے خلاف سونتاہے
حضور انور ایدہ الله نے تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کےبعد ارشاد فرمایا۔حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بارہ میں گزشتہ خطبات میں جو ذکر ہؤا تھا مہمات بجھوانے کا اُن کی کچھ تفصیل بیان کرتا ہوں تاکہ اُس وقت کے حالات کی شدت کا بھی کچھ اندازہ ہو۔
گیارہ بھجوائی گئی مہمات میں سے پہلی کی تفصیل
جو طُلَیحہ بن خُوَیلِد، مالک بن نُوَیرہ، سجاح بنت حارث اور مُسَیْلمہ کذّاب وغیرہ باغی مرتدین اور جھوٹے نبیوں کے قلع قمع کے لئے بھیجی گئی تھی۔حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ایک جھنڈا حضرت خالدؓ بن ولید کے سپرد کیا اور آپؓ کو حکم دیا کہ طُلَیحہ بن خُوَیلِد کے مقابلہ کے لئے جائیں اور اُس سے فارغ ہو کر بُطاح میں مالک بن نُوَیرہ سے لڑیں، اگر وہ لڑائی پر مُصر ہو تو پھر لڑنا ہے۔ بمطابق ایک روایت آپؓ نے حضرت ثابتؓ بن قیس کوانصار کا امیر مقرر کیا اور اُنہیں حضرت خالدؓ بن ولید کے ماتحت کر کےحضرت خالدؓ کو حکم دیا کہ وہ طُلَیحہ اور عُیَیْنَہ بن حِصن کے مقابلہ پر جائیں جو بنو اسد کے ایک چشمہ بُزاخہ پر فروکش تھے۔
الله کی تلواروں میں سے ایک تلوار
جب حضرت ابوبکرؓ نے مرتدین سے جنگ کے لئے حضرت خالدؓ بن ولید کے واسطے جھنڈا باندھا تو فرمایا! مَیں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ خالدؓ بن ولید الله کا بہت ہی اچھا بندہ ہے اور ہمارا بھائی ہے جو الله کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے جسے الله تعالیٰ نے کفار اور منافقین کے خلاف سونتا ہے۔
کاہن طُلَیحہ اور عُیَیْنَہ دونوں مخالفین کا مختصر تعارف
طُلَیحہ بن خُوَیلِد بن نوفل بن نضلہ الاسدی جھوٹے مدعیان نبوت میں سے ایک تھا جو رسول اللهؐ کی حیات طیبہ کے آخری دَور میں نمودار ہؤا، آپؐ کی زندگی میں ہی ارتداد کا شکار ہؤا، نبوت کا دعویٰ کر بیٹھا اور سمیراء کو اپنا فوجی مرکز بنایا۔
لوگوں کی گمراہی کے اسباب
بہرحال جب اِس نے دعویٰ کیا تو عوام اِس کے مرید ہو گئے، لوگوں کی گمراہی کا پہلا سبب یہ ہؤا کہ وہ اپنی قوم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، پانی ختم ہو گیا تو لوگوں کو شدید پیاس لگی، ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُس نے لوگوں سے کہا! تم میرے گھوڑے اعلال پر سوار ہو کر چند میل جاؤ وہاں تمہیں پانی ملے گا۔ اُنہوں نے ایسا ہی کیا اور اُنہیں پانی مل گیا، اِس وجہ سے دیہاتی اِس فتنہ کا شکار ہو گئے۔ اِس کی بے حقیقت باتوں میں سے یہ بھی تھی کہ اُس نے نماز سے سجدوں کو ختم کر دیا تھا اور یہ زعم تھا کہ آسمان سے اُس پر وحی آتی ہے اور مسجع اورمقفّیٰ عبارتیں بطور وحی کے پیش کیا کرتا تھا۔
رسول اللهؐ کی وفات اور طُلَیحہ کے معاملہ کا تصفیہ نہ ہونا
جب خلافت کی بھاگ دوڑ حضرت ابوبکرؓ نے سنبھالی اور باغی مرتدین کو کچلنے کے لئے فوج تیار کی اور قائدین مقرر کئے تو اِس کی طرف حضرت خالدؓ بن ولید کی قیادت میں فوج روانہ کی۔
عُیَیْنَہ بن حِصن کون تھا؟
یہ فتح مکہ سے قبل اسلام لایا ، اِس نیز غزوۂ حُنَین اور طائف میں بھی شرکت کی۔ پھر عہد صدیقی میں باغی مرتدوں کے ساتھ یہ فتنۂ ارتداد کا شکار ہو گیا اور طُلَیحہ کی طرف مائل ہو گیا، اُس کی بیعت کر لی بہرحال پھر بعد میں اسلام کی طرف بھی لَوٹ آیا تھا۔
جب عَبْس، ذُبیان اور اُن کے حامی بُزاخہ مقام پر جمع ہو گئے
تو طُلَیحہ نے بنو جَدِیلہ اور غوث کو جو کہ قبیلہ طَے کی دو شاخیں تھیں کہلا بھیجا کہ تم فورًا میرے پاس آ جاؤ چنانچہ ایسا ہی ہؤا۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالد ؓ بن ولید کو ذُوالقَصّہ سے روانہ کرنے سے قبل حضرت عدیؓ سے کہا کہ تم اپنی قوم یعنی قبیلہ طَے کے پاس جاؤ ایسا نہ ہو کہ وہ برباد ہو جائیں۔
حضرت عدیؓ کا اپنی قوم کے پاس آنا اور دعوت اسلام دینا
آپؓ اپنی قوم کے پاس آئے، اِن کو دعوت اسلام دی اور خوف دلایا۔ اُنہوں نے کہا! ابو الفصیل (بعض لوگ حقارت و توہین کی غرض سے حضرت ابوبکؓر کو اونٹ کے بچہ کا باپ کہتے تھے) کی ہر گز اطاعت نہیں کریں گے۔ حضرت عدیؓ نے بے رحم حملہ آور لشکر کی پیش قدمی، قتل و غارت کے بازار گرم ہونے نیز کسی کو امان نہ ملنے پر متنبہ کرنے اور سمجھانے کے بعد کہا! پھر اُس وقت تم حضرت ابوبکرؓ کو فحل(ہر جانور کانَر) الاکبر کی کنیت سے یاد کرو گے۔
حضرت عدیؓ کا عظیم کارنامہ
آپؓ کے حضرت خالدؓ کو اپنے قبیلہ طَے کے دوبارہ اسلام لے آنے کی اطلاع نیز مذکورۂ بالا تناظر میں ایک مصنف نے لکھا ہے، حضرت عدیؓ کا یہ عظیم کارنامہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی قوم کو اسلامی فوج میں شمولیت کی دعوت دی، بنو طَے کی لشکر خالدؓ میں شمولیت دشمن کی پہلی شکست تھی کیونکہ اِن کا شمار جزیرۂ عرب کے قوی ترین قبائل میں ہوتا تھا نیزدیگر قبائل اُن کو اہمیت دیتے تھے۔
حضرت خالدؓ کا مقابلۂ جَدِیلہ کے خیال سے بطرف اَنسرکوچ
اِس سلسلہ میں حضرت عدیؓ نے حضرت خالدؓ سے کہا! قبیلہ طَے کی مثال ایک پرندہ کی سی ہے اور قبیلہ جَدِیلہ بنو طَے کے دو بازؤں میں سے ایک بازو ہے، آپؓ مجھے چند روز کی مہلت دیں شاید الله تعالیٰ جِدِیلہ کو بھی راہِ راست پر لے آئے۔ حضرت عدیؓ کی مسلسل بات چیت کے نتیجہ میں اُنہوں نے آپؓ کی بیعت کی اور آپؓ قبیلہ جَدِیلہ کے ایک ہزار سواروں کےساتھ مسلمانوں کے پاس آ گئے۔
مسلمانوں کے دو بڑے سرداروں اور گھڑ سوار وں کی شہادت
حضرت ثابت ؓبن اقرم اور حضرت عُکاّشہ ؓ بن مِحْصَن کی شہادت کی صورتحال کے نتیجہ میں حضرت خالد ؓ طُلَیحہ کے مقابلہ کےلئے اپنی فوج کو مرتب کرنے لگے اور بُزاخہ پر دونوں کا مقابلہ ہؤا۔
اور اُن سب نے اسلام قبول کرنے کی شرط پر بیعت کر لی
اہل بُزاخہ کی شکست کے بعد بنو عامر آئے اور اُنہوں کے کہا! ہم دین میں داخل ہوتے ہیں جس سے ہم نکل گئے تھے۔ حضرت خالدؓ نے بشمول بنو عامر، اسد، غطفان، ہَوَازِن، سُلَیم اور طَے میں سے کسی کی بیعت قبول نہیں کی سوائے اِس کے کہ وہ اِن تمام لوگوں کو جنہوں نے ارتداد کی حالت میں اپنے ہاں کے مسلمانوں کو آگ میں جلایا تھا اور اُن کا مُثلہ کیا تھا اور مسلمانوں پر چڑھائی کی تھی کہ اُن کو مسلمانوں کے حوالہ کر دیں۔ آپؓ نے اِن مندجات کو حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں بھی تحریر فرمایا۔
حضرت ابوبکرؓ نے بھی حضرت خالدؓ کے نام ایک خط میں جوابًا لکھا
جو کچھ تم نے کیا اور کامیابی تم کو حاصل ہوئی الله تم کو اِس کی جزائے خیر دے، تم اپنے ہر کام میں الله سے ڈرتے رہو اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّالَّذِیۡنَ ھُمۡ مُّحۡسِنُوۡنَ (النّحل: 129) یقینًا الله اُن لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جو احسان کرنے والے ہیں، تم الله کے کام میں پوری جدوجہد کرنا اور تساہل نہ کرنا، بصورت فائدہ اسلام حکم خدا کے نافرمانوں اور اسلام دشمنوں کو تم قتل کر سکتے ہو۔ حضرت خالدؓ ایک ماہ بُزاخہ میں فروکش رہے نیز حسب ہدایت حضرت ابوبکر ؓ مجرموں کو سخت سزائیں دیں۔
اُمّ زِمل کی طرف پیش قدمی اور سرکوبی
آخر پرحضور انور ایدہ الله نے حضرت خالدؓ بن ولید کے مقام ظفر کی طرف جانے، اُمّ زِمل (سلمیٰ بنت مالک بنت حذیفہ) جواپنی ماں اُمّ قِرفہ (فاطمہ بنت ربیعہ، سردار بنو فُزارہ نیز اپنی قوت اور حفاظتی انتظامات کے طور پر ایک ضرب المثل مانی جانے والی) سے عزت و شہرت میں مشابہ تھی، اُس اور اُس کی جمیعتوں کے مقابلہ کے لئے پیش قدمی ، نہایت شدید جنگ، اُمّ زِمل کے قتل، باقی ماندہ ساتھیوں کی بدحواسی اور فرارکی تفصیلات بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا! اِس طرح اِس فتنہ کی آگ ٹھنڈی ہو گئی اور جزیرۂ نما ئے عرب کے شمال مشرقی حصہ میں ارتداد اور بغاوت کا خاتمہ ہو گیا۔
دو مرحومین کا تذکرۂ خیر و اعلان برائے نمازِ جنازہ غائب
حضور انور ایدہ الله نے خطبۂ ثانیہ سے قبل مکرمہ صابرہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم رفیق احمد بٹ صاحب آف سیالکوٹ اور مکرمہ ثریا رشید صاحبہ اہلیہ مکرم رشید احمد باجوہ صاحب آف حال مقیم کینیڈا کا تذکرۂ خیر کیا نیز بعد از نماز جمعۃ المبارک اِن کی نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔
(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل آن لائن جرمنی)