سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 08؍جولائی 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے
حضرت ابوبکر رضی الله عنہ بڑے دُوراندیش، گہری بصیرت کے مالک اور انجام کار پر نگاہ رکھتے تھے۔ جہاں سختی کی ضرورت ہوتی سختی کرتے، جہاں عفو ودرگزر کی ضرورت ہوتی عفوودرگزر سے کام لیتے۔ آپؓ قبائل کے بکھرے ہوئے لوگوں کو اسلام کے پرچم تلے جمع کرنے کے حریص اور شوقین تھے، آپؓ کی حکیمانہ سیاست یہ تھی کہ مخالف زعمائے قبائل کو حق کی طرف لَوٹ آنے کے بعد درگزر کر دیا جائے
حضور انور ایدہ الله نے تشہد، تعوذ اور سورۃالفاتحہ کی تلاوت کے بعدزمانۂ حضرت ابوبکر صدیقؓ میں مرتد باغیوں کے خلاف مہمات کے تذکرہ کے تسلسل میں بر تفصیل گیارہویں مہم ارشاد فرمایا! آپؓ نے ایک جھنڈا حضرت مُہاجرؓ بن ابو اُمَیَّہ کو دیتے ہوئے حکم دیا! وہ اَسود عَنسی کی فوج کا مقابلہ اور ابناء (مقتدر اقلیت یمن و نسل فارسی آباء) کی مدد کریں جن سے قیس بن مکشوح اور دوسرے اہل یمن برسرپیکار تھے نیز ہدایت دی کہ یہاں سے فارغ ہو کر کندہ قبیلہ کے مقابلہ کے لئے حضر موت چلے جانا۔
تعارف حضرت مُہاجرؓ بن ابو اُمَیَّہ بن مُغیرہ بن عبدالله
آپؓ اُمّ المؤمنین حضرت اُمّ سلمہؓ کے بھائی تھے، غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ جانے کی ناراضگی رفع ہونے پر رسول اللهؐ نے اِنہیں عامل کندہ مقرر فرما دیا مگر وہ بیمار ہو گئے وہاں نہ جا سکے تو اُنہوں نےزیاد رضی الله عنہ کو لکھا! وہ اُن کی خاطر اُن کا کام بھی سر انجام دیں۔ بعد میں جب شفاء پائی تب حضرت ابوبکرؓ نے تقرر امارت کو پورا کرتے ہوئے اُنہیں نجران سے لیکر یمن کی آخری حدود تک حاکم مقرر کیا نیز قتال کا حکم دیا۔
سب سے پہلے یمن میں زمانۂ رسول اللهؐ میں ارتداد شروع ہوا
جس کا بانی اَسود عَنسی کے نام سے مشہور ہونے والا ذوالخمار عبہلہ بن کعب یمنی قبیلہ بنو عنس کا سردار اور بوجہ سیاہ فارم ہونے اَسود کہلاتا تھا۔ اُس نے اپنا لقب رحمٰن الیمن رکھا جس طرح مُسَیْلمہ نے رحمٰن الیمامہ، اُس نے یہ بھی کہا کہ اُس پر وحی آتی اور اُسے دشمن کے تمام منصوبوں کا علم قبل از وقت ہو جاتا ہے، وہ شعبدہ باز تھا اور لوگوں کو عجیب و غریب شعبدے دکھاتا۔ بمطابق روایت بخاری آنحضرتؐ کو خواب میں پہلے سے ہی بتا دیا گیا تھا کہ دو جھوٹے مدعیان نبوت (صنعاء والا اَسود عَنسی، یمامہ والا مُسَیْلمہ کذّاب) خروج کریں گے۔
رسول اللهؐ نے ایرانی بادشاہ کسریٰ کو دعوت اسلام کا خط لکھا
تو اُس نے غضبناک ہو کر اپنے ماتحت عامل یمن باذان کو حکم دیا کہ وہ اُس شخص (رسول اللهؐ) کا سر لے کر دربار میں پہنچے۔ اُس نے دو آدمی آپؐ کی طرف روانہ کئے مگر آپؐ نے فرمایا! میرے الله نے مجھے بتایا ہے کہ تمہارے بادشاہ کو اُس کے بیٹے شیرویہ نے ہلاک کر دیا ہے اور اُس کی جگہ خود بادشاہ بن بیٹھا ہے اور ساتھ ہی باذان کو دعوت اسلام دی اور فرمایا! اگر وہ اسلام قبول کر لے گا تو اُسے بدستور حاکم یمن رکھا جائے گا۔ یہ سُن کر دونوں اشخاص واپس چلے گئے، باذان کو ساری بات بتائی اور اُسی دوران باذان کو یہ خبر بھی مل گئی کہ واقعی ایسا ہوا ہے۔ باذان نے جب اِس بات کو پورا ہوتے ہوئے دیکھ لیا تو اُس نے دعوت اسلام قبول کر لی اور آپؐ نے اُسے حاکم یمن برقرار رکھا۔
باذان کا جب انتقال ہو گیا
تو اُس وقت رسول اللهؐ نے اپنے اُمَراء کو یمن کے مختلف علاقوں پر عامل مقرر فرمایا، یمن کے جنوبی حصہ میں رہنے والے کاہن اَسود نے شعبدہ بازی اور مسجع و مقفّیٰ گفتگو کی وجہ سے بہت جلد لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی نیز نبوت کا دعویٰ بھی کر دیا۔ جس پر سادہ اور جاہل لوگوں کی بہت بڑی تعداد اُس کے گرد اکٹھی ہو گئی، دراصل اُس نے یہ نعرہ بھی لگایا کہ یمن صرف یمنیوں کا ہے تو یمن کے باشندے قومیت کے اِس نعرہ سے بہت متاثر ہوئے۔ حضور انور ایدہ الله نے تصریح فرمائی! یہ نعرہ بڑا پرانا ہے، آج بھی یہی استعمال ہوتا ہے اور دنیا میں جو فساد پھیلا ہوا ہے اِسی وجہ سے ہے۔
جب یہ تشویشناک اطلاعات مدینہ پہنچیں
رسول اللهؐ شہدائے غزوۂ موتہ کا انتقام لینے اور شمالی جانب سے حملوں کی روک تھام کے لئے لشکر حضرت اُسامہ بن زید رضی الله عنہما کی تیاریوں میں مشغول تھے، آپؐ نے یمن کے سرداروں کے نام پیغام بھیجاکہ وہ اپنے طور پر اَسود کا مقابلہ جاری رکھیں اور جونہی لشکر اُسامہؓ فتحیاب ہو کر لَوٹے گا تو اُسے یمن کی جانب روانہ کر دیا جائے گا۔
اَسود عَنسی کی فوج اور قبیلہ مذحج میں اُس کا قائمقام
اُس کی فوج میں سات سو گھڑ سوار اور اونٹ سوار اِس کے علاوہ تھے، بعد میں اِس کا اقتدار مضبوط ہوتا گیا۔ قبیلہ مذحج میں اُس کا قائمقام یمن کا مشہور شہ سوار، شاعر اور مقرر اَبو ثور عَمرو بن معدی کرب تھا، دس ہجری میں اُس نے اپنے قبیلہ بنو زَبِید کے وفد کے ساتھ بخدمت آنحضرتؐ حاضر ہو کر قبول اسلام کیا، آپؐ کی وفات کے بعد یہ مرتد ہو گیا لیکن بعد میں پھر حق کی طرف رجوع کر لیا اور جنگ قادسیہ میں کارہائے نمایاں انجام دیئے۔
اِس طرح اَسود عَنسی یمن کے تمام علاقہ پر قابض ہو گیا
اَسود عَنسی نے پہلے نجران پر حملہ کر کےحضرت عَمروؓ بن حزم اور حضرت خالدؓ بن سعید کو وہاں سے نکال دیا۔ اِس کے بعد اِس نے صنعاء پر چڑھائی کی، وہاں حضرت شہرؓ بن باذان نے اُس کا مقابلہ کیا لیکن وہ شہید ہو گئے۔ اَسود عَنسی نے شہادت کے بعد آپؓ کی بیوی مرزوبانہ (آزاد) سے زبردستی شادی بھی کر لی تھی۔
اِسی اثناء میں بطرف حضر موت و مسلمانان یمن رسول اللهؐ کا خط پہنچا
جس میں اَسود عَنسی کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیا گیا تھا لہٰذا اِس مقصد کے لئے حضرت مُعاذؓ بن جبل کھڑے ہوئے اور اُس سے مسلمانوں کے دل مضبوط ہو گئے۔ جِشْنِس (جُشَیش) دیلمی (اُن لوگوں میں سے تھے جنہیں نبی کریمؐ نے اَسود عَنسی کے قتل کے لئے یمن میں خط لکھا تھا اور اُنہوں نے فیرُوز اور داذویہ کے ساتھ مل کر اُسے قتل کیا تھا) کہتے ہیں کہ وَبَرؓ بن یُحنِّس (ابنائے یمن میں سے دس ہجری میں بخدمت آنحضرتؐ حاضر ہو کر قبول اسلام کرنے والے) رسول الله صلی الله علیہ و سلم کا خط لے کر ہمارے پاس آئے۔ جس میں آپؐ نے حکم دیا تھا! ہم اپنے دین پر قائم رہیں اور لڑائی یا حیلہ سے اَسود کے خلاف جنگی کاروائی کریں نیز آپؐ کے پیغام کو اُن لوگوں کو بھی پہنچائیں جو اِس وقت اسلام پر راسخ اور دین کی حمایت پر آمادہ ہوں۔ ہم نے عمل کیا مگر ہم نے دیکھا اَسود کے خلاف کامیاب ہونا بہت دشوار ہے۔
جِشْنِس دیلمی بیان کرتے ہیں کہ ہمیں ایک بات معلوم ہوئی
اَسود اور عَمرو بن معدی کرب کے بھانجے قیس بن عبد یغوث بن مکشوح (یمن میں مرتد ہونے والوں میں سے تھے لیکن بعد میں اسلام کی طرف لَوٹ آئے، فتح عراق اور جنگ قادسیہ میں اِن کا بہت نمایاں نام آتا ہے، جنگ نہاوند میں شریک اور جنگ صفین میں حضرت علی رضی الله عنہ کی ہمراہی میں شہید ہوئے) کے درمیان کچھ پرخاش پیدا ہو چکی تھی لہٰذا ہم نے سوچا قیس کو اپنی جان کا خطرہ ہے، ہم نے اِسے دعوت اسلام دی اور پیغام آنحضرتؐ پہنچایا تو اُسے ایسا محسوس ہوا کہ گویا ہم آسمان سے اُترے ہیں اِس لئے اُس نے فورًا ہماری بات مان لی نیز ہم نے دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی خط و کتابت کی، مختلف قبائلی سردار بھی اَسود کے مقابلہ کے لئے تیار ہو چکے تھے۔ اِسی طرح رسول اللهؐ نے نجران کے تمام باشندوں کو معاملہ اَسود کے متعلق لکھا تھا، اُنہوں نے آپؐ کی بات مان لی۔ جب یہ اطلاع اَسود تک پہنچی تو اُسے اپنی ہلاکت نظر آنے لگی۔
مرتد باغی اَسود اپنے انجام کو پہنچ گیا
جِشْنِس دیلمی کو ایک ترکیب سوجھی، وہ اَسود کی بیوی آزاد کے پاس گئے نیز اَسود کے ہاتھوں اُس کے پہلے خاوند حضرت شہرؓ بن باذان کی شہادت، اُس کے خاندان کے دیگر افراد کی ہلاکت اور خاندان کو پہنچنے والی ذلت اور مظالم یاد دلائے اور اُسے اَسود کے خلاف اپنی مدد کے لئے کہا تو وہ بڑی خوشی سے تیار ہو گئی۔ آخرکار ایک مکمل منصوبہ بندی اور آزاد کی تائید کے ساتھ اَسود عَنسی کو ایک رات اُس کے محل میں داخل ہو کر قتل کر دیا گیا۔ اِس طرح یہ فتنہ تین ماہ تک اور بمطابق ایک قول چار ماہ کے قریب بھڑک کر ٹھنڈا ہو گیا۔
بعد ازاں صنعاء میں پہلے کی طرح مسلمانوں کی حکومت قائم ہو گئی
لیکن یمن میں ایک دفعہ پھر بغاوت اُٹھی، وفات رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا جب چرچا ہوا تو سُدھرتے حالات پھر خراب ہو گئے۔ لائق، اولوالعزم اور قومی عصبیت سے سر شارقیس بن عبدیغوث اب پھر اسلام کی وفاداری سے منحرف ہو گیا۔ یمن میں فارسیوں کا اقتدار اُسے ہمیشہ سے کھٹکتا رہتا تھا، اُس کے خاتمہ کے بعد وہ ابناء کی خوشحالی، اُن کی اجتماعی اور اقتصادی برتری کو خاک میں ملانا چاہتا تھا۔ ایک کامیاب فوجی لیڈر وہ پہلے سے تھا، اُس نے اَسود کے فوجی لیڈروں سے ساز باز کی اور ابناء کو ملک سے نکالنے کا منصوبہ بنا لیا۔ فیرُوز اور داذویہ دونوں سے اِس نے تعلقات خراب کر لئے، داذویہ کو دھوکہ سے قتل کر دیا جبکہ فیرُوز بال بال بچ گیا۔ فیرُوز نے حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کو اپنی اور ابناء کی وفاداری سے مطلع کر کے درخواست کی کہ ہماری مدد کی جئے، ہم اسلام کے لئے ہر قربانی کرنے کو تیار ہیں۔
حضرت مُہاجر رضی الله عنہ کی بطرف نجران روانگی
حضرت ابوبکرؓ کے تشکیل کردہ گیارہ لشکروں میں سے سب سے آخرمیں آپؓ کا لشکر مدینہ ٔ منورہ سے یمن کے لئے روانہ ہوا، راستہ میں مختلف قبائل کے لوگ آپؓ کے لشکر میں شامل نیز یہ کافی بڑا لشکر آگے چلتا گیا۔ خطبۂ ثانیہ سے قبل حضور انور ایدہ الله نے عَمرو بن معدی کرب اور قیس بن مکشوح کی گرفتاری، بخدمت حضرت ابوبکر صدیقؓ پیش کئے جانے، اِن سے ہونے والی بازپرس، معافی وآزادی اور اُن کے قبائل کے سپرد کئے جانے نیز مستقبل میں اِن کی رہائی کے نتیجہ میں مرتب ہونے والے دُور رَس اثرات کا تذکرہ فرمایا۔
(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل آن لائن جرمنی)