سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 9؍ستمبر 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے
حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے منگل کی شام بتاریخ بائیس جمادی الآخر تیرہ ہجری تریسٹھ سال کی عمر میں انتقال فرمایا، آپؓ کا عہد خلافت دو سال تین مہینے دس روز پر محیط رہا
حضور انور ایدہ الله نے تشہد، تعوذ اور سورۃالفاتحہ کی تلاوت کے بعد ارشاد فرمایا! حضرت ابوبکرؓ کی زندگی کےکچھ واقعات بیان کروں گا۔
وہ آپؓ کی رائے سے بھی افضل ہیں
جب حضرت ابوبکرؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپؓ نے حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف کو بلایا اور فرمایا! مجھے عمرؓ کے متعلق بتاؤ، تو اُنہوں نے کہا! اے خلیفۂ رسول اللهؐ، الله کی قسم! وہ آپؓ کی جو رائے ہے اُس سے بھی افضل ہیں ۔ حضرت عمرؓ کی طبیعت میں پائی جانے والی سختی کی بابت حضرت ابوبکرؓ نے صراحت فرمائی! اگر امارت اُن کے سپرد ہو گئی تو وہ اپنی بہت سی باتیں جو اُن میں ہیں چھوڑ دیں گے۔
ہم میں اُن جیسا کوئی نہیں
اِس کے بعد آپؓ نے حضرت عثمانؓ بن عفّان کو بلایا اور اُن سے حضرت عمرؓ کے بارہ میں دریافت فرمایا، حضرت عثمانؓ نے کہا! اُن کا باطن اُن کے ظاہر سے بھی بہتر ہے اور ہم میں اُن جیسا کوئی نہیں۔
اگر مَیں عمر کو چھوڑتا ہوں تو عثمان سے آگے نہیں جاتا
اِس پر حضرت ابوبکرؓ نے دونوں اصحابؓ سے فرمایا! جو کچھ مَیں نے تم دونوں سے کہا ہے اُس کا ذکر کسی اور سے نہ کرنا، اگر مَیں عمر کو چھوڑتا ہوں تو مَیں عثمان سے آگے نہیں جاتا اور اُن کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ تمہارے امور کے متعلق کوئی کمی نہ کریں، اب میری یہ خواہش ہے کہ مَیں تمہارے امور سے علیحدٰہ اور تمہارے اسلاف میں سے ہو جاؤں۔
مَیں نے تیرے بندوں میں سے بہترین کو خلیفہ بنایا
حضرت ابوبکرؓ کی بیماری کے دنوں میں حضرت طلحہؓ بن عُبید الله آپؓ کے پاس آئے کہ آپؓ نے حضرت عمرؓ کو خلیفہ بنا دیا ہے حالانکہ آپؓ دیکھتے ہیں کہ وہ آپؓ کی موجودگی میں لوگوں سے کیسے سلوک کرتے ہیں، اُس وقت کیا حال ہو گا کہ جب وہ تنہاء ہوں گے اور آپؓ اپنے رب سے ملاقات کر یں گے اور وہ آپؓ سے رعیت کے بارہ میں پوچھے گا؟ آپؓ نے فرمایا! مجھے بٹھا دو، سہارا دے کر بٹھایا گیا تو فرمایا! کیا تم مجھے الله سے ڈراتے ہو؟ جب مَیں اپنے رب سے ملوں گا اور وہ مجھ سے پوچھے گا تو مَیں جواب دوں گا کہ مَیں نے تیرے بندوں میں سے بہترین کو تیرے بندوں پر خلیفہ بنایا ہے۔
حضرت عمر رضی الله عنہ کی بطور خلیفہ نامزدگی پر اعتراض کا جواب
حضرت المصلح الموعودؓ ارشاد فرماتے ہیں۔ اگر کہا جائے کہ قوم کے انتخاب سے ہی کوئی خلیفہ ہو سکتا ہے تو حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کو نامزد کیوں کیا تھا؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ آپؓ نے یونہی نامزد نہیں کر دیا بلکہ پہلے صحابہؓ سے آپؓ کا مشورہ لینا ثابت ہے، فرق ہے تو صرف اتنا کہ اور خلفاء کوخلیفہ کی وفات کے بعد جبکہ حضرت عمرؓ کو حضرت ابوبکرؓ کی موجودگی میں ہی منتخب کر لیا گیا۔ پھر آپؓ نے اِسی پر بس نہیں کیا بلکہ باوجود سخت نقاہت اور کمزوری کےاپنی بیوی کا سہارا لے کر مسجد میں پہنچے اور لوگوں سے کہا، اے لوگو! مَیں نے صحابہؓ سے مشورہ لینے کے بعد اپنے بعد خلافت کے لئے عمر کو پسند کیا ہے، کیا تمہیں بھی اُن کی خلافت منظور ہے؟ اِس پر تمام لوگوں نے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا، پس یہ بھی ایک رنگ میں انتخاب ہی تھا۔
تاریخ طبری میں تذکرۂ علالت و وفات حضرت ابوبکر رضی الله عنہ
بیماری کا باعث یہ ہؤا کہ سات جمادی الآخر بروز سوموار آپؓ نے غسل کیا، اُس روز بوجہ خوب سردی ہونے آپؓ کو بخار ہو گیا جو پندرہ روز تک رہا یہاں تک کہ آپؓ نماز کے لئے باہر آنے کے قابل بھی نہ رہے،آپؓ نے حکم دے دیا کہ حضرت عمرؓ نماز پڑھاتے رہیں۔لوگ عیادت کے لئے آتے مگر روز بروز آپؓ کی طبیعت خراب ہوتی گئی، اُس زمانہ میں آپؓ رسول اللهؐ کے عنایت فرمودہ مکان (جوحضرت عثمانؓ بن عفّان کے مکان کے سامنے واقع تھا) میں ٹھہرے ہوئے تھے ، علالت کے زمانہ میں زیادہ تر تیمارداری حضرت عثمانؓ کرتے رہے۔ کسی نے آپؓ سے کہا! طبیب کو بلا لیں تو اچھا ہے، آپؓ نے فرمایا! وہ مجھے دیکھ چکا ہے، لوگوں نے پوچھا اُس نے آپؓ سے کیا کہا ہے؟ فرمایا! اُس نے یہ کہا ہے اِنِّیْ اَفْعَلُ مَا اَشَآءُ (ارادۂ الٰہی) مَیں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں۔
وصال سیّدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ
آپؓ نے منگل کی شام کو بتاریخ بائیس جمادی الآخر تیرہ ہجری کوتریسٹھ سال کی عمر میں انتقال فرمایا، آپؓ کا عہد خلافت دو سال تین مہینے دس روز رہا۔ آپؓ کے لبوں سے جو آخری الفاظ ادا ہوئے وہ قرآن کریم کی یہ آیت مبارکہ تھی تَوَفَّنِیۡ مُسۡلِمًا وَّاَلۡحِقۡنِیۡ بِالصّٰلِحِیۡنَ (یوسف: 102) یعنی مجھے فرمانبردار ہونے کی حالت میں وفات دے اور مجھے صالحین کے زُمرہ میں شمار کر۔ آپؓ کی انگھوٹی کا نقش تھا نِعْمَ الْقَادِرُ اللّٰهُ یعنی کیا ہی قدرت رکھنے والا ہے الله تعالیٰ۔
حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کی وصیت
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں۔حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا! میری تجہیز وتکفین سے فارغ ہو کر دیکھنا کہ کوئی اور چیز تو نہیں رہ گئی، اگر ہو تو اُس کو بھی عمرؓ کے پاس بھیج دینا۔ تجہیز و تکفین کے متعلق فرمایا! اِس وقت جو کپڑا بدن پر ہے اُسی کو دھو کر دوسرے کپڑوں کے ساتھ کفن دینا۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا! یہ تو پرانا ہے، کفن کے لئے نیا ہونا چاہئے۔ فرمایا! زندے مُردوں کی بہ نسبت نئے کپڑوں کے زیادہ حقدار ہیں۔
غسل، تجہیز و تکفین
حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں۔ آپؓ نے وصیت کی تھی کہ آپؓ کی اہلیہ حضرت اسماءؓ بنت عُمیس آپؓ کو غسل دیں، حضرت ابوبکرؓ کے صاحبزادے حضرت عبدالرحمٰنؓ نے اُن کے ساتھ معاونت کی۔ آپؓ کا کفن دو کپڑوں پر مشتمل جبکہ اِن میں سے ایک غسل کے لئے استعمال ہونے والا تھا، یہ بھی روایت ہے کہ تین کپڑوں میں کفن دیا گیا۔ پھر آپؓ کو نبی کریم ؐ کی چارپائی پر رکھا گیا (جس پر حضرت عائشہؓ سویا کرتی تھیں) اِسی چارپائی پر آپؓ کا جنازہ اُٹھایا گیا اور حضرت عمرؓ نے رسول الله ؐ کی قبر اور منبر کے درمیان آپؓ کا جنازہ پڑھایا اور بوقت رات اِسی حجرہ میں رسول الله ؐ کی قبر کے ساتھ دفن کیا گیا، آپؓ کا سر رسول اللهؐ کےکندھوں کے مقابل میں رکھا گیا۔ تدفین کے وقت حضرت عمرؓ بن خطاب، حضرت عثمانؓ بن عفّان، حضرت طلحہؓ بن عُبیدالله اور حضرت عبدالرحمٰنؓ بن ابوبکرؓ قبر میں اُترے اور تدفین کی۔
ازواج و اَولاد
آپؓ کی چار بیویاں قُتیلہ بنت عبد العُزیٰ (والدہ حضرت عبداللهؓ وحضرت اسماءؓ) ، حضرت اُمّ رومان بنت عامر (والدہ حضرت عبدالرحمٰنؓ و حضرت عائشہؓ)، حضرت اسماءؓ بنت عُمیس (والدہ محمدبن ابوبکرؓ) اور حضرت حبیبہؓ بنت خارجہ (والدہ حضرت اُمّ کلثوم، جن کی ولادت حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے کچھ عرصہ بعد ہوئی) تھیں۔
حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کا نظام حکومت
آپؓ کو جب کوئی امر پیش آتا اور اہل الرّائے کا مشورہ درکار ہوتا تو آپؓ مہاجرین میں سے حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف، حضرت مُعاذؓ بن جبل، حضرت اُبَیؓ بن کعب اور حضرت زیدؓ بن ثابت کو بھی بلاتے یا بعض اوقات زیادہ تعداد میں مہاجرین و انصار کو جمع فرماتے۔
قیام بیت المال
عہد حضرت ابوبکرؓ میں بوجہ فتوحات علاوہ دوسری مَدّات غنیمت اور جزیہ کی آمد میں بھی کافی زیادہ اضافہ ہو گیا۔ آپؓ کو ایک بیت المال قائم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تاکہ تقسیم اور خرچ ہو جانے تک مال وہاں رکھا جا سکے، چنانچہ آپؓ نے اکابر صحابہؓ کے مشورہ سے ایک مکان اِس کے لئے مختص کر دیا لیکن یہ بیت المال برائے نام ہی رہا کیونکہ آپؓ کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی تھی کہ نقد اور جنس آنے کے ساتھ ہی تقسیم کر دیا جائے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب آپؓ خلیفہ منتخب ہوئے تو آپؓ کی ضروریات کا انتظام بھی(سالانہ تین ہزار دِرہم یا کُل عہد خلافت میں چھ ہزار دِرہم) وظیفۂ بیت المال سے کیا گیا، آپؓ پہلے والی تھے جس کی رعایا نے اُس کے مصارف منظور کئے۔ کتب سیرت میں بالاتفاق یہ ملتا ہے اگرچہ آپؓ نے بیت المال سے اپنی اور اہل وعیال کی ضروریات پوری کرنے کے لئے وظیفہ لیا مگر بوقت وفات تمام رقوم واپس کر دیں۔
عہد صدیقی میں محکمہ قضاء، اِفتاء اور کتابت کا نظام
آپؓ نے اجراء نظام محکمۂ قضاء نیز عام مسلمانوں کی سہولت کے لئے محکمۂ اِفتاء کا قیام فرمایا، آپؓ کے عہد خلافت میں نظام دیوان قائم نہ ہؤا تھا لیکن سرکاری احکامات کی تحریر، معاہدوں کی ترقین اور دوسرے تحریری کاموں کے لئے کچھ حضرات مخصوص تھے۔
دَور حضرت ابوبکرؓ میں کوئی باقاعدہ فوجی نظام نہ تھا
بوقت جہاد ہر مسلمان مجاہد ہوتا، فوجی تقسیم بمطابق قبائل ہوتی، ہر قبیلہ کا امیر الگ الگ اور اُن سب پر امیر الاُمراء کا عہدہ ہوتا جو کہ آپؓ کی ایجاد تھی۔ آپؓ نے فراہمیٔ سامان جنگ کے لئے یہ انتظام فرمایا کہ مختلف ذرائع سے جو آمدنی ہوتی تھی اُس کا ایک معقول حصہ فوجی اخراجات کے لئے علیٰحدہ نکال لیتے، جس سے اسلحہ اور باربرداری کے جانور خرید لیتے، مزید جہاد کے اونٹوں کے لئے بعض چراگاہیں مخصوص کر دی تھیں۔ آپؓ جنگ پر جانے والے سپۂ سالاروں اور کمانڈروں کوہدایات بھی دیتے، اِس تناظر میں حضور انور ایدہ الله نے آپؓ کی لشکر اُسامہؓ سے مخاطب ہوتے ہوئے پُرحکمت نصائح کا تذکرہ فرمایا نیزحضرت یزیدؓ بن ابوسفیانؓ کو جنگ شام کے لئے بجھواتے ہوئے ارشاد فرمودہ زریں نصائح کی بابت یادہانی کروائی کہ اِس کا ذکر مَیں گزشتہ ایک خطبہ میں بھی کر چکا ہوں، بعض اہم باتوں کا خلاصہ دوبارہ بیان کر دیتا ہوں، یہ بڑی ضروری اور ہر عہدہ دار کے لئے یاد رکھنے والی باتیں ہیں اور اِن سے کاموں میں برکت پڑے گی۔
اسلامی حکومت کی مختلف ریاستوں میں تقسیم اور طریقہ کار تقرری عمّال
آپؓ کے عہد خلافت میں بلاد اسلامیہ کو مختلف ریاستوں میں تقسیم کیا گیا، اِن میں آپؓ نے اُمراء اور گورنر مقرر کئے، مدینہ اِن کا دارالخلافہ تھا جہاں آپؓ بحیثیت خلیفہ تھے۔ آپؓ سنت نبی کریمؐ پر عمل پیراء کسی قوم پر گورنر مقرر کرتے ہوئے اِس بات کا خیال رکھتے کہ اگر اِس قوم میں نیک و صالح افراد ہوتے تو اُنہی میں سے گورنر مقرر فرماتے ، عاملین کے انتخاب میں اولیتِ اسلام کو دیکھا جاتا نیز ایسے شخص کو مقرر کیا جاتا جو درسگاہ نبوت ؐ سے تربیت یافتہ ہو۔ کبھی قبائلی عصبیت یا اَقرباء نوازی کا رویہ اختیار نہیں کیا، اِسی سخت اصول اور بلند معیاری کا نتیجہ تھا کہ آپؓ کے مقرر کردہ عمّال و حکام نے ہمیشہ اپنی بہترین صلاحیتیں اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے لئے استعمال کیں۔
(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ الفضل آن لائن جرمنی)